1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان اور پاکستان میں ڈرون حملے اور ہلاکتیں جاری

Emran Feroz / امجد علی19 اپریل 2016

افغانستان اور پاکستان میں ڈرون حملے اور ان میں اکثر عام شہریوں کی بھی ہلاکت کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ گزشتہ وِیک اَینڈ پر افغان صوبے پکتیکا میں متعدد افراد نے اپنے احتجاجی مظاہرے میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کیا۔

https://p.dw.com/p/1IYUI
USA Drohne Drohnenkrieg Krieg Pakistan Afghanistan
افغانستان اور پاکستان میں ڈرون حملوں اور یوں ’موت کے فرشتوں کا کھیل‘ جاری ہے، ایک عشرے سے زائد عرصے کے دوران سینکڑوں حملے ہو چکے ہیںتصویر: picture alliance/dpa

مشرقی افغان صوبے پکتیکا میں گومل کے مقام پر ہونے والے اس احتجاجی مظاہرے کے شرکاء ’ہمیں انصاف چاہیے‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ پکتیکا میں اپریل کے اوائل میں ایک ڈرون حملے میں کم از کم سترہ افراد کی ہلاکت کی خبر دیگر ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ نیویارک ٹائمز میں بھی شائع ہوئی تھی۔ وہاں تھوڑے وقت کے اندر اندر تین مختلف مقامات نشانہ بنے اور مقامی آبادی کے مطابق سبھی مرنے والے عام شہری تھے۔ یہ اور بات ہے کہ افغان پولیس اور فوج دونوں ہی اس کی تردید کرتے ہیں۔ دونوں کا یہی دعویٰ ہے کہ صرف اور صرف عسکریت پسند مارے گئے۔ امریکی فوج کے مطابق بھی مرنے والے ’دہشت گرد‘ تھے۔

لندن میں صحافیوں کی تنظیم TBIJ (بیورو آف انویسٹی گیٹیو جرنلزم)، جس کی ڈرون طیاروں کی مدد سے لڑی جانے والی جنگوں پر خاص نظر رہتی ہے، نے بتایا ہے کہ افغانستان دنیا بھر میں سب سے زیادہ ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والا ملک ہے، جہاں دو ہزار ایک اور دو ہزار تیرہ کے درمیانی عرصے میں کم از کم ایک ہزار چھ سو ستر حملے کیے گئے۔

حملوں کی تعداد سے قطعِ نظر مزید کوئی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں مجموعی طور پر کتنے انسان ڈرون حملوں میں ہلاک یا زخمی ہوئے۔ اس تنظیم کی تحقیق سے البتہ اتنا ضرور واضح ہے کہ پاکستان میں سن 2004ء کے بعد سے جو تین ہزار سے زائد انسان ڈرون حملوں میں مارے گئے، اُن میں سے اَسّی فیصد متاثرین عام شہری تھے جبکہ صرف چار فیصد کا تعلق القاعدہ سے قریبی وابستگی رکھنے والے افراد سے تھا۔

ڈرون حملوں کے باعث مرتے عموماً عام شہری ہیں لیکن سیاستدان اور فوج اُن کے بارے میں ’عسکریت پسند‘ یا ’دہشت گرد‘ کے الفاظ ہی استعمال کرتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے مشرقی کنڑ صوبے کے نقیب اللہ نے بتایا کہ وہ اپنے بھائی عبدالواحد اور بیٹے عامر کے ہمراہ قریبی شہر اسد آباد کے ایک ہسپتال گیا تھا، جہاں سے واپسی پر اُس نے اپنے بیٹے اور بھائی کو پہلے روانہ کر دیا اور خود بعد میں آنے کا کہہ دیا۔ بعد ازاں جب اُس نے اپنے گاؤں فون کیا تو اُسے پتہ چلا کہ وہ دونوں تو تیرہ دیگر افراد کے ہمراہ راستے ہی میں ایک ڈرون حملے میں مارے جا چکے ہیں۔ جب اُس نے مقامی فوج سے رابطہ کیا تو اُسے بتایا گیا کہ وہ دونوں اُس وقت تک طالبان جنگجو قرار دیے جاتے رہیں گے، جب تک کہ اس کے برعکس ثابت نہ کر دیا جائے۔ نقیب اللہ کے مطابق ’یہ دعویٰ مضحکہ خیز اور شرم ناک ہے کہ میرا پچیس سالہ بھائی اور میرا چار سالہ بیٹا طالبان جنگجو تھے‘۔

Protest gegen Dronenangriffe in Pakistan
فرانسیسی فوٹوگرافر JR نے سن 2014ء میں ’ناٹ اے بَگ سپلیٹ‘ نامی منصوبے کے تحت پاکستان کے قبائلی علاقے میں وہاں کے بچوں کے بہت ہی بڑے بڑے پوسٹرز زمین پر رکھ کر ڈرون حملے کرنے والوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی تھی کہ نیچے بچے بھی اُن کے نشانے پر ہیں، یہاں ایک بچے کی بڑے سائز کی تصویر کو ایک میدان میں پھیلایا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/AA

کابل کے ایک سیاسی تجزیہ کار وحید مژدہ کے مطابق ڈرون حملوں کے متاثرین کے بارے میں درست معلومات اس لیے بھی سامنے نہیں آتیں کیونکہ صحافی ڈرون حملوں کا ہدف بننے والے علاقوں کو خطرناک گردانتے ہوئے وہاں جانے سے گریز کرتے ہیں۔

گزشتہ ہفتوں اور مہینوں میں افغانستان میں ڈرون حملوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پندرہ اپریل کو صوبے ننگر ہار ہی میں ایک ڈرون حملے میں کم از کم چھیالیس افراد ہلاک ہو گئے۔ ا ِن کے بارے میں بھی یہی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ سب عسکریت پسند تھے۔ آیا واقعی ایسا ہے، یہ جانچنا ممکن نہیں ہے۔ واشنگٹن یا کسی اور جگہ جو بھی دعوے کیے جائیں، پکتیکا میں نقیب اللہ اور دیگر مظاہرین کے نزدیک اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اُن کے جو رشتے دار اور دوست ڈرون حملے میں مارےگئے، وہ سب عام بے گناہ شہری تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید