1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

افغانستان: جنگ سے تباہ شدہ گاؤں کو تعمیر کرنے کی کوشش

4 دسمبر 2021

جغرافیائی طور پر اسٹریٹیجک اہمیت رکھنے والا گاؤں آرزو جو وسطی شہر غزنی جانے والی سٹرک کے ساتھ واقع ہے، کئی سالوں تک جنگ کا میدان تھا۔‍‍

https://p.dw.com/p/43pwa
تصویر: Gulrahim Niazman/AP/picture alliance

برسوں جاری جنگ سے تباہ ہونے والے  افغان گاؤں آرزو میں معاشی بحران کے باعث یہاں کے رہائشی جاوید نے اپنا ذاتی گھر بنانے کی امید چھوڑ دی ہے۔  طالبان جنگجو اس چھوٹے سے گاؤں اور اس کے آس پاس حکومتی فورسز سے پانچ مرتبہ لڑائی کر چکے ہیں۔ جاوید کے مطابق،''دن رات فائرنگ ہو رہی تھی اور ہمارا گھر فائرنگ کے درمیان تھا۔''جاوید نے وہ سرنگ دکھائی جو کہ طالبان نے اس سال اس کے گھر کے بیچ میں کھودی تھی تاکہ اسے لڑائی میں استعمال کیا جاسکے۔ جاوید اور ان کا خاندان اب بھی اپنے رشتہ دار کے گھر پناہ لیے ہوئے ہے۔ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ اپنے گھر کی تعمیر نو کر سکے۔

اپنی دکان کے کاروبار کو ایک مرتبہ پھر چلانے کے لیے وہ پہلے ہی قریب سولہ سو یورو کے قرض دار ہیں۔ جاوید چاہتے ہیں کہ کوئی غیر سرکاری تنظیم یا حکومت ان کی مدد کرے۔ اس سال شدید جنگ کا مقابلہ کرنے کے بعد آرزو گاؤں میں بچے چند رہائشی بھی جون میں اپنے گھروں کو چھوڑ گئے تھے۔ دو ماہ بعد، افغانستان طالبان کے قبضے میں چلا گیا تھا اور عالمی برادری کی طرف سے افغانستان کے امدادی فنڈز کو منجمد کرنےسے معاشی بحران پیدا ہو گیا۔ اس مشکل کے ساتھ ساتھ تباہ کن خشک سالی نے خوراک کی سنگین قلت بھی پیدا کر دی۔

آرزو جیسے دیہی علاقوں کو دو دہائیوں پر محیط افغانستان میں جاری  تنازعے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ نیٹو، امریکی فوجیوں ، افغان حکومت اور طالبان کے مابین جاری جنگ میں  ہزاروں  شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔     

امن کے قیام کے ساتھ اب کچھ خاندان آہستہ آہستہ آرزو کی طرف واپس لوٹ رہے ہیں اور اپنے گھروں کو  دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

آرزو گاؤں کی 55 سالہ لیلوما افغان فورسز اور باغیوں کے درمیان ہونے والی فائرنگ میں اپنی بیٹی سے محروم ہوگئیں۔ ان کے شوہر  سر میں گولی لگنے سے بچ تو گئے، لیکن وہ اب کام نہیں کر سکتے۔ پہلی مرتبہ جب ان کا گھر لڑائی میں تباہ ہوا تو انہوں نے اسے دوبارہ تعمیر کر لیا لیکن اس بار ان کے پاس اپنے گھر کی مرمت کے لیے پیسے نہیں ہیں۔

پینسٹھ سالہ رفیع اللہ، جو مقامی گرلز سکول میں استاد تھے، ان کی بیٹی جنگ کے دوران گولی لگنے سے ہلاک ہو گئی تھی۔ اگرچہ اسکول نے دوبارہ کلاسز شروع کر دی ہیں، اور رفیع اللہ اپنے طالب علموں کے ساتھ دوبارہ مل کر خوشی منانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اپنی اولاد کو کھو دینے سے وہ شدید  غمزدہ ہیں۔ اسکول کا نیلا گیٹ گولیوں کے درجنوں سوراخوں سے چھلنی ہے، کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، اور دیواریں گولے بارود سے داغدار ہیں۔ حالیہ جنگ میں اس گاؤں کے 40 شہری ہلاک ہوئے تھے۔

 گاؤں کے رہائشی نقیب احمد کہتے ہیں، "ہم اب (فصل) کاشت نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنے مویشی استعمال کر سکتے ہیں، وہ اب ختم ہو چکے ہیں ۔ ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں رہا ۔" موسم سرما کے لیے خوراک کے کوئی ذخائر نہ ہونے کے باعث، کچھ لوگ غزنی یا پاکستان اور ایران میں دیہاڑی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ صرف حکومتی مدد یا بین الاقوامی امداد حاصل کرنے کے لیے پر امید ہیں۔ احمد کہتے ہیں، "ہمارے پاس زندہ رہنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ بہت سے خاندانوں پر قرض ہے اور وہ انہیں واپس نہیں کر سکتے۔''

ب ج، ع ب (اے ایف پی)