1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: دو منتظم، مسائل دوگنا

عدنان اسحاق8 اپریل 2016

افغانستان میں اشرف غنی صدر ہیں تو عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکیٹو۔ ماہرین کہتے ہیں کہ دونوں کے درمیان اختلافات ابھی تک موجود ہیں۔ دونوں کی ترجیحات مختلف ہیں اور اسی وجہ سے افغانستان میں بدانتظامی اور بدعنوانی پھیل رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1IS4Z
تصویر: Wilson/Getty Images

افغانستان میں بدعنوانی کی روک تھام کی ادارے کے ایک اہلکار نے ایک سال کے دوران ہی اپنے عہدے سے استعفی دے دیا کیونکہ اسے حکم دیا گیا تھا کہ وہ اہم سیاستدانوں کے معاملات میں قوانین پر عمل پیرا نہ ہو۔ اسی طرح بہت سے سرکاری ملازمین بھی صدر اشرف غنی کی انتظامیہ پر کھلی تنقید کر چکے ہیں۔ افغان خفیہ ادارے کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبیل نے گزشتہ برس دسمبر میں فیس بک پر اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اسی طرح ابھی حال ہی میں ہلمند صوبے کے ایک سرکاری افسر نے فیس بک پر ہی اعلان کیا تھا کہ طالبان صوبے کے مختلف علاقوں پر قبضہ کی تیاری میں ہیں،’’میں روایتی طریقے اپناتے ہوئے متعدد مرتبہ اعلی حکام کو مطلع کرنے کی کوششیں کرتے کرتے تھک چکا ہوں لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب ہی نہیں آیا‘‘۔

Afghanistan Protest gegen Taliban
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul

متعدد مقامی ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں پھیلی ہوئی بدعنوانی اور بد انتظامی کے باعث حکومت ختم نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ کابل میں ایک یورپی سفارت کار نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا،’’اس سلسلے میں انہوں نے کوئی دوسرا منصوبہ تیار نہیں کیا ہے،انہیں ایک متبادل منصوبے پر کام کرنا چاہیے‘‘۔ افغان حکومت کو سکڑتی ہوئی اقتصادیات، بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور منقسم سیاسی نظام کا سامنا ہے۔

دو سال کے بعد بھی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ ابھی تک اپنے اختلافات کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ ابھی حال ہی میں یہ دونوں رہنما اپنے دوریاں ختم کرنے کے لیے ایک جگہ جمع ہوئے تھے اور یہ ملاقات پورے دن کے لیے طے تھی تاہم چند گھنٹوں بعد ہی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کمرے سے باہر آ گئے۔

اشرف غنی پشتون ہیں اور عبداللہ عبداللہ تاجک ہیں اور اس پس منظر کی وجہ سے حکومت بھی دو حصوں میں تبدیل دکھائی دیتی ہے۔ یہ دونوں اعلی سرکاری نوکریوں میں بھی اپنے اپنے لوگوں کو بھرتی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سیاسی ماہرین کا مطابق اسی وجہ سے سیاسی عمل مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ سیاسی امور کے ماہر ہارون میر کہتے ہیں کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی نظر میں نہ تو تمام وزراء برابر ہیں اور نہ ہی ان دونوں کو وہ جوابدہ ہیں۔