1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان، مغوی ڈچ خاتون اکیاسی دن بعد رہا

عاصمہ علی11 ستمبر 2015

ڈچ وزارت خارجہ کی طرف سے تصدیق کر دی گئی ہے کہ ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی امدادی کارکن انژا ڈے بیئر کو رہا کر دیا گیا ہے۔ اس خاتون کارکن کو جون میں نا معلوم مسلح افراد نے افغانستان میں اغوا کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1GV3A
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Morenatti

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈچ وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انژا ڈے بیئر رہائی کے بعد کابل میں ہالینڈ کے سفارتخانے میں پہنچ چکی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان کی حالت بہتر ہے۔

تجربہ کار امدادی کارکن انژا ڈے بیئر پچھلے پندرہ سالوں سے اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں کی لیے فرائض سرانجام دیتی آئی ہیں۔ وہ گزشتہ کئی سال سے سوئٹزلینڈ کی غیر سرکاری تنظیم Helvetas کی لیے افغاستان میں کام کر رہی تھیں۔

ہالینڈ کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ رہائی کے بعد ان کی اپنے کنبے اور وزیر خارجہ کے ساتھ بات ہوگئی ہے۔ ڈچ وزیر خارجہ نے انژا ڈے بیئر کی رہائی کی خبر سن کرکہا کہ اب وہ خود کو کافی ہلکا محسوس کر رہے ہیں۔

ایک بیان میں انژا ڈے بیئر نے کہا ’میں بہت خوش ہوں کہ اکیاسی دن کی غیر یقینی صورتحال ختم ہو گئی ہے۔‘ ہالینڈ کے نشریاتی ادارے NOS سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اغوا کاروں نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا، ’وہ مجھے خوراک اور پانی دیتے تھے اور انہوں نے میرے ساتھ کبھی بُرا برتاؤ نہیں کیا‘۔

انژا ڈے بیئر کو 22 جون کو ان کے دفتر کے سامنے ایک ایسے وقت میں دن دیہاڑے بندوق کی نوک پر اغوا کیا گیا تھا، جب دوسرے امدادی کارکن اور صحافی بھی وہاں موجود تھے۔ یہ امر اہم ہے کہ افغانستان میں عسکریت پسندی میں اضافے کے ساتھ امدادی کارکنان بھی پرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔

Anschlag auf EU Fahrzeug in Kabul Afghanistan 5. Januar 2015
انسانی حقوق کارکنان کے لیے اس جنگ زدہ ملک میں کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہےتصویر: Shah Marai/AFP/Getty Images

اپریل میں ’سیو دی چلڈرن‘ نامی ادارے میں کام کرنے والے پانچ افغان کارکنان کی گولیوں سے چھلنی لاشیں جنوبی صوبے ارزگان سے برآمد ہوئی تھیں۔ ان افراد کو اغوا کرنے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ پچھلے مہینے بھی ایک جرمن امدادی کارکن کو دن دیہاڑے اغوا کیا گیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کارکنان کے لیے اس جنگ زدہ ملک میں کام کرنا کتنا مشکل ہے۔

انژا ڈے بیئر نے کہا ہے کہ وہ ہالینڈ واپس جانا چاہتی ہیں کیونکہ ان کی آزما ئش ختم ہوگئی ہے۔ ان کے خاندان والوں نے میڈیا سے درخواست کی ہے کہ انژا ڈے بیئر کی نجی زندگی کا احترام کیا جائے تاکہ وہ اس حادثےکو بھلانے میں کامیاب ہو سکیں۔ ابھی تک کسی گروہ نے انژا ڈے بیئر کے اغوا کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔