1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں اب کیا ہوگا؟ یورپ امریکی جواب کے انتظار میں

29 جون 2017

امریکی کے یورپی اتحادی ممالک نیٹو کے افغان مشن میں مدد فراہم کرنے اور وہاں دوبارہ فوجی تعینات کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن مغربی ممالک کے سامنے سوال یہ ہے کہ افغان جنگ ختم کب ہو گی اور اس حوالے سے امریکی حکمت عملی کیا ہے؟

https://p.dw.com/p/2fdYa
U.S. Secretary of Defense Mattis and NATO Secretary-General Stoltenberg pose during a NATO defence ministers meeting in Brussels
تصویر: Reuters/Virginia Mayo

سفارتی ذرائع کے مطابق آج امریکا کے یورپی اتحادی امریکی وزیر دفاع جیمز میٹِس کو بتائیں گے کہ وہ نیٹو مشن کی چھتری تلے افغانستان میں مزید فوجی تعینات کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اس حوالے سے پہلے امریکا کو اپنی حکمت عملی واضح کرنا ہوگی۔ امریکا تین سے پانچ ہزار تک مزید فوجی افغانستان تعینات کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جبکہ نیٹو اتحاد بارہ سو کے قریب فوجی افغانستان میں بھیج سکتا ہے لیکن ابھی اس حوالے سے کوئی بھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔

نیٹو اتحاد کی چھتری تلے اس وقت مختلف ممالک کے تقریبا تیرہ ہزار چار سو پچاس فوجی افغانستان میں موجود ہیں جبکہ وہاں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد تقریبا آٹھ ہزار چار سو ہے اور ان میں سے چھ ہزار نو سو نیٹو کے ڈھانچے میں رہتے ہوئے کام کر رہے ہیں۔

طالبان نے بھی ٹرمپ کو پیغام بھیج دیا

نیٹو کے فوجی اتحاد کا رواں ماہ بند دروازوں کے پیچھے ایک اجلاس ہوا تھا، جس میں برطانیہ اور آسٹریلیا سمیت اس کے پندرہ رکن ممالک نے افغانستان میں نئی امریکی حکمت عملی کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ نیٹو کے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا تھا، ’’یہ صرف فوجیوں کے اضافے سے متعلق نہیں ہے۔ یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ کیا سیاسی طور پر ایسا ممکن ہے؟‘‘

 افغانستان کے حالات ابھی اور خراب ہوں گے، امریکی انٹیلیجنس چیف

نیٹو کی طرف سے دوبارہ فوجی بھیجنے کا فیصلہ طالبان کی زمینی کامیابیوں اور افغان حکومت کی ناکامیوں کو ظاہر کرے گا۔ تاہم نیٹو اراکین کے مطابق ہر چیز کا انحصار امریکی افغان اسٹریٹیجی پر ہے، جسے میٹس چلا رہے ہیں۔ ایک دوسرے نیٹو عہدیدار کا کہنا تھا، ’’ہمیں امریکا سے وضاحت کی ضرورت ہے۔‘‘

دوسری جانب کئی عہدیداروں نے نئی امریکی اسٹریٹیجی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ایک تیسرے عہدیدار کا کہنا تھا، ’’پہلے امریکا نے کہا تھا کہ وہ مئی میں نیا منصوبہ پیش کرے گا پھر آج کا کہا گیا ہے اور ابھی بھی صورتحال واضح نہیں ہے۔ جو الجھن واشنگٹن میں ہے، اس کا اثر پڑ رہا ہے۔‘‘

ری پبلکن سینیٹر جان مکین نے حال ہی میں سینیٹ کی سماعت کے دوران میٹس سے کہا تھا، ’’جب آپ کے پاس اسٹریٹیجی ہی نہیں ہے تو ہم آپ کی حمایت بمشکل کر سکیں گے۔‘‘

تاہم اس حوالے سے کوئی اسٹریٹیجی جولائی کے وسط میں سامنے آ سکتی ہے۔ میٹس کا یورپ آتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ واپس جا کر باقی رہ جانے والی چیزوں کو بھی حتمی شکل دیں گے اور  جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈینفورڈ سے ملیں گے، جو افغانستان کا دورہ کر کے واپس پہنچے ہیں۔

ان کے مطابق اس کے بعد نئی افغان اسٹریٹیجی ’’امریکی صدر اور افغانستان کو پیش کی جائے گی۔ اس میں ایک فریم ورک دیا جائے گا، جو علاقائی بھی ہے اور  یہ کہ کس طرح جنگ  کا اختتام کیا جائے گا۔‘‘