1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں امن کی پس پردہ کوششیں، طالبان وفد پاکستان میں

عبدالستار، اسلام آباد26 اپریل 2016

اٖفغانستان میں قیامِ امن کے لیے کوششیں ایک بار پھر شروع کر دی گئی ہیں۔ اسی سلسلے میں افغان طالبان کا ایک وفد قطر سے صدر اشرف غنی کے حکومتی نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے لیے پاکستان پہنچ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Icxs
Katar Doha Taliban Vertreter Diplomatie
پاکستان پہنچنے والے وفد میں مولوی جان محمد بھی شامل ہیں۔ اس تصویر میں مولوی جان محمد مدنی قطر کے نائب وزیر خارجہ علی بن فہد الحجری کے ساتھ دکھائی دے رہے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal

پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک تین رکنی طالبان وفد، جس میں مولوی شہاب الدین دلاور اور مولوی جان محمد شامل ہیں، اسلام آباد پہنچ چکا ہے۔ مولوی شہاب الدین طالبان کے دورحکومت میں اسلام آباد کے افغان سفارت خانے سے منسلک رہے ہیں جب کہ مولوی جان محمد متحدہ عرب امارات میں اٖفغان سفارت خانے سے وابستہ رہے ہیں۔

افغان طالبان سے ہمدردی رکھنے والے اسلام آباد میں مقیم ایک جہادی رہنما نے نام نہ بتانے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا ،’’افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں جاری ہیں اور اس سلسلے میں افغان طالبان کا وفد ملک میں موجود بھی ہے، تاہم ابھی مذاکرات کا کوئی ٹائم فریم طے نہیں ہوا ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ پہلے مشاورتی اجلاس ہوں گے اور اس کے بعد مذاکرات کی کوئی صورت بن سکتی ہے۔‘‘

تاہم افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ڈی ڈبلیو کو بذریعہ ای میل بتایا، ’’مجھے اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہیں۔ افغانستان میں امن کا راستہ صرف ایک ہی ہے کہ ہمارے ملک پر بیرونی قبضہ ختم کیا جائے۔‘‘جب ڈوئچے ویلے نے ان سے یہ سوال کیا کہ کیا مولوی شہاب الدین دلاور اور مولوی جان محمد اب بھی افغان طالبان کا حصہ ہیں ، توانہوں نے اِس کا جواب دینے سے گریز کیا۔

یاد رہے کہ پیر کو افغان صدر اشرف غنی نے اسلام آباد پر سخت تنقید کی تھی اور پاکستانی حکومت سے یہ شکوہ کیا تھا کہ وہ وعدے کے مطابق افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پرنہیں لا سکی۔ صدر غنی نے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان افغان طالبان کو کابل کے حوالے کرے تاکہ اٰن پر شرعی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکے۔

گزشتہ منگل کو طالبان کی طرف سے کابل پر ایک بڑا حملہ کیا گیا۔ امریکی حکام نے اس حملے کی ذمہ داری حقانی نیٹ ورک پر ڈالی تھی۔ حملے کے بعد صدر غنی پر بے انتہا دباؤ تھا کہ وہ پاکستان کے حوالے سے سخت موقف اپنائیں۔ پارلیمان میں ان کی تقریر اسی دباؤ کی عکاسی کرتی ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے اشرف غنی کی تقریر پر رد عمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ’’افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا صرف اسلام آباد کی ذمہ داری نہیں ہے اور یہ کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘

Aschraf Ghani Präsident von Afghanistan
پیر کو افغان صدر اشرف غنی نے اسلام آباد پر سخت تنقید کرتے ہوئے شکوہ کیا تھا کہ وہ وعدے کے مطابق افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پرنہیں لا سکیتصویر: Getty Images/AFP/S. Marai

افغان طالبان نے اپنی ویب سائٹ شاہمت پر صدر غنی کی تقریر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا، ’’صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ ملک کے دشمن ہیں اور غیر ملکی قوتوں کے آلہٴ کار ہیں، جو افغان عوام پر امریکی ڈالر اور ہتھیار کے بل بوتے پر ظلم ڈھا رہے ہیں، انہیں اِن مظالم کا حساب دینا پڑے گا۔‘‘

پاکستان کے لیے عام طور پر نرم گوشہ رکھنے والے صدر اشرف غنی اپنے حالیہ خطاب میں اسلام آباد پر بھی برسے۔ ان کی اس تقریر پر کچھ پاکستانی تجزیہ نگاروں کو حیرت بھی ہوئی اور کچھ چراغ پا بھی ہوئے۔ پاکستانی حساس ادارے کے ایک اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان کابل سے اچھے تعلقات چاہتا ہے لیکن افغانستان میں موجود بھارتی لابی ان تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ہے، ہم نے خلوصِ دل سے مذاکرات کا راستے ہموار کیا تھا لیکن پوری دنیا جانتی ہے کہ اس پر پانی کس نے پھیرا۔‘‘

تجزیہ نگاروں کے خیال میں کابل پر طالبان کے تازہ حملے اور صدر اشرف غنی کے سخت موقف سے یہ لگتا ہے کہ دونوں فریقین مذاکرات میں غیر لچکدار موقف اپنائیں گے، جس سے ان مذاکرات کی کامیابی کے کم امکانات ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید