1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں جرمن فوج کا کردار قابل تحسین ہے، میک کرسٹل

21 اپریل 2010

افغانستان میں متعین عالمی امن فورس آئی سیف کے کمانڈر، امریکی جنرل اسٹینلی میک کرسٹل آج جرمن دارلحکومت برلن پہنچے جہاں انہوں نے وفاقی جرمن وزیر دفاع کارل تھیوڈور سو گٹن برگ سے ملاقات کی۔

https://p.dw.com/p/N2GQ
تصویر: AP

جنرل میک کرسٹل کے اس دورے کا مقصد جرمن حکام کے ساتھ جرمنی کے افغانستان کے موجودہ مینڈیٹ میں توسیع کے امکانات پر بات چیت کرنا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران افغانستان میں متعدد جرمن فوجیوں کی ہلاکت سے ، جرمن عوام اور سیاسی حلقوں میں ہندو کُش میں جرمن فوج کی تعیناتی کے بارے میں تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔

Eine Anti-Personen-Mine explodiert in Kabul, Afghanistan
آئی سیف کے دستوں کو ہر قسم کی جنگی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔تصویر: AP

جنرل اسٹینلی میک کرسٹل کو بخوبی اندازہ ہے کہ جنگ میں کیسا لگتا ہے اور اس کے دوران کن کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے امریکہ کی Elite Military Unit سے تربیت حاصل کی ہے اور یہ 1991 کی خلیجی جنگ کے دوران سعودی عرب میں متعینہ اسپیشل فورسز میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ 55 سالہ جنرل اسٹینلی میک کرسٹل 2008 ء تک ’جوائنٹ اسپیشل آپریشنز کمانڈ‘ کی قیادت کرتے رہے۔ عراق میںUS Central Command کی سربراہی کرنے کے بعد اب وہ ہندو کُش میں امریکہ اور نیٹو کی فورسز کی قیادت کر رہے ہیں۔

Betende US-Soldaten
افغانستان سے پہلے امریکی فوجی عراق میں طویل عرصے تک تعینات رہے ہیں۔تصویر: AP

آتش فشاں کے پھٹنے سے فضا میں پھیلنے والی راکھ کے سبب یورپی ہوائی اڈوں پر پروازوں کا سلسلہ مکمل طور پر بند رہنے کی وجہ سے جنرل میک کرسٹل طے شدہ پلان کے مطابق گزشتہ اتوار کو جرمنی نہیں آسکے تھے۔ تاہم پروازوں کا سلسلہ بحال ہوتے ہی وہ آج برلن پہنچے، جہاں انہوں نے جرمن وزیر دفاع کارل تھیوڈور سو گٹن برگ کے ساتھ ملاقات کے بعد سب سے پہلے جرمنی کی وزارت دفاع کے احاطے کے اندر علامتی طور پر گزشتہ دنوں کے دوران افغانستان میں ہلاک ہونے والے جرمن فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے میموریل پرپھول چڑہائے۔

Afghanistan Bundeswehr Trauerfeier
افغانستان میں ہلاک ہونے والے جرمن فوجیوں کی میت گھر آنے پر چانسلر میرکل سمیت تمام قوم سوگوار دکھائی دی۔تصویر: AP

اس کے بعد وزارت دفاع میں ہی دونوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا۔ جنرل میک کرسٹل نے کہا کہ جرمنی افغانستان میں امریکی فوجی کارروائیوں کا ایک اہم پارٹنر ہے اور رہے گا۔ انہوں نے کہا ’شمالی افغانستان میں جہاں جرمن فوج کا ہیڈ کوارٹرقائم ہے، جرمنی دستوں کا کردار امتیازی حیثیت کا حامل ہے اور رہے گا۔ میں ان کی خدمات اور ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں‘۔ تاہم امریکی جنرل نے کہا کہ رواں سال نہایت مشکل ثابت ہوگا۔ انہیں نے کہا کہ افغانوں کو اس قابل بنانا ہوگا کہ وہ خود اپنے ملک کے معاملات سمبھال سکیں۔ اس موقع پر جرمن وزیر دفاع سوگٹن برگ نے جرمن عوام کی رائے کے برخلاف ہندو کُش میں جرمن فوجیوں کی تعیناتی جاری رکھنے کا یقین دلایا۔ جرمن وزیر کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کی صورتحال نہایت سنگین ہے تاہم جرمنی تمام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے بہترین طریقے سے اپنے فرائض انجام دے گا۔ سوگوٹن برگ کے بقول’ جرمنی اور امریکہ باہمی طور پر ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ وفاقی جمہوریہء جرمنی نے شمالی افغانستان کی ذمہ داری اٹھائی ہے اور وہ اسےآئندہ بھی ممکنہ حد تک نبھاتا رہے گا‘۔ جرمن وزیر نے امریکہ کی طرف سے شمالی افغانستان میں بھی امریکی فوجیوں کی طرف سے جرمن فوج کو معاونت کی یقین دہانی پر جنرل میک کرسٹل کا شکریہ ادا کیا۔

Afghanistan Deutschland Bundeswehr Guttenberg in Feldlager Faisabad
جرمن وزیر دفاع گزشتہ دنوں کے دوران افغانستان کے متعدد دورے کر چکے ہیں۔تصویر: AP

جنرل میک کرسٹل کے برلن پہنچنے سے پہلے ہی سابق جرمن وزیر خارجہ اور موجودہ پارلیمان میں اپوزیشن پارٹی ایس پی ڈی کی پارلیمانی حزب کے سربراہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے خبر رساں ایجنسیوں کو بیان دیتے ہوئے جرمنی کے افغانستان مینڈیٹ کے بارے میں کہا کہ وہ اور ان کی سیاسی جماعت اس بارے میں ایک ذمہ دارانہ سیاست پر زور دیتے ہیں اور اِس سال جنوری میں جو مینڈیٹ طے ہوا تھا، وہ برقرار رہے گا۔ اس موقع پر اشٹائن مائر نے اپنی جماعت سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کو نئے افغانستان مینڈیٹ سے خبردار کیا ۔

Deutschland Polen Trauer zum Tod von Präsident Lech Kaczynski Botschaft in Berlin Frank-Walter Steinmeier
جرمنی کی اپوزیشن پارٹی کی طرف سے حکومت پر افغانستان میں جرمن فوجیوں کی تعیناتی کے بارے میں خاصہ دباؤ ہے۔تصویر: picture alliance/dpa

ادھر جنرل میک کرسٹل کے دورہء برلن کے ضمن میں جرمنی کی فری ڈیموکریٹک پارٹی ایف ڈی پی کی دفاعی امور کی ماہر ایلکے ہوف سوائفل نے اشپیگل آن لائن کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ جرمن فوج افغانستان میں نیٹو کی اُس نئی اسٹرٹیجی کے لئے تیار ہے، جس کے تحت افغانستان کے مقامی دستوں کی تربیت کے کاموں میں اضافہ ہونا چاہئے تاہم اُنہوں نے اِس بارے میں شک و شبہ ظاہر کیا کہ ’آیا میرکل حکومت موجودہ صورتحال میں جنرل میک کرسٹل کی اسٹریٹیجی کے مطابق جرمنی سے کئے جانے والے مطالبات کو پورا کر سکتی ہے‘۔ افغانستان میں اس وقت تعینات غیر ملکی فوجی دستوں میں جرمن فوجی دستہ تیسرا بڑا دستہ ہے۔

رپوٹ کشور مصطفیٰ

ادارت امجد علی