1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں داعش کا رہنما ہلاک ہو چکا ہے، اشرف غنی

7 مئی 2017

افغان صدر اشرف غنی نے تصدیق کر دی ہے کہ ملک میں انتہا پسند گروہ داعش کا رہنما عبدالحسیب مارا جا چکا ہے۔ گزشتہ برس حافظ سعید خان کی ہلاکت کے بعد حسیب کو افغانستان میں داعش کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/2cZOl
Irak Kämpfe um Mossul
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed

خبر رساں ادارے روئٹرز نے سات مئی بروز اتوار افغان صدر اشرف غنی کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملکی خصوصی دستوں کی ایک کارروائی کے نتیجے میں داعش کا سربراہ عبدالحسیب ہلاک ہو گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ افغان دستوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے یہ کارروائی گزشتہ ماہ ننگر ہار صوبے میں کی تھی۔

امریکا کے خیال میں عبدالحسیب لوگری کا گروپ عراق اور شام میں سرگرم گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے قریبی طور پر جڑا ہوا تھا۔ امریکی فوج اس گروپ کو ’اسلامک اسٹیٹ خراسان‘ یا ISIS-K کا نام دیتی ہے۔

افغانستان میں امریکی فورسز نے گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ اس آپریشن کے دوران ملک میں سرگرم ’اسلامک اسیٹ‘ کے کئی سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ ساتھ پینتیس سے زیادہ جنگجوؤں کو بھی ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاہم تب یہ تصدیق نہیں ہو سکی تھی لوگری ہلاک ہو گیا ہے۔

حسیب سے قبل افغانستان میں داعش کا رہنما حافظ سعید خان تھا، جو گزشتہ برس ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔ افغان حکومت کے مطابق حسیب کی ہلاکت ملک میں داعش کے خلاف جاری کارروائیوں میں ایک اہم پیشرفت ہے۔

امریکی فورسز کے مطابق اگر اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ اس آپریشن میں حسیب بھی اپنے معاونین سمیت ماراگیا ہے تو افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں میں نمایاں کمی آئے گی اور 2017ء کے اندر اندر اس گروپ کو افغانستان میں مکمل طور پر تباہ کرنے کا ہدف حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

امریکی محکمہٴ دفاع کے اندازوں کے مطابق  افغانستان میں داعش (اسلامک اسٹیٹ یا آئی ایس) نے 2015ء کے آغاز میں قدم جمانا شروع کیے تھے اور آج کل اس گروپ کے پرچم تلے سرگرم جنگجوؤں کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ رہ گئی ہے، جو کہ شروع میں اس گروپ میں شامل ہونے والوں کی تعداد کا نصف بنتی ہے۔