1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں پچھلی غلطیاں نہیں دہرائیں گے، امریکی وزیر دفاع

مقبول ملک اے ایف پی
15 جون 2017

امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں واشنگٹن کی ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائے گی۔ ٹرمپ نے حال ہی میں اشارہ دیا تھا کہ افغانستان میں جنگ سے متعلق امریکی پالیسی اب خود پینٹاگون ہی کا کام ہو گا۔

https://p.dw.com/p/2eku5
Afghanistan Helmand 2012 - US Marines
تصویر: Getty Images/AFP/A. Berry

واشنگٹن سے جمعرات پندرہ جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے بدھ کی شام اس عزم کا اظہار کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ اب افغانستان میں ان غلطیوں کو نہیں دہرائے گی، جو گزشتہ امریکی صدور کے ادوار میں ہندو کش کی اس ریاست میں واشنگٹن کی پالیسیوں میں کی جاتی رہی ہیں۔

Singapur IISS Shangri la Dialogue - James Mattis
امریکی وزیر دفاع جیمز میٹستصویر: Reuters/E. Su

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اپنے پیش رو صدر باراک اوباما کے مقابلے میں، جن کے دور اقتدار میں افغانستان میں امریکی فوجی دستوں کی ہر تعیناتی یا انخلاء کا وائٹ ہاؤس کی طرف سے بغور اور بہت تنقیدی جائزہ لیا جاتا تھا، ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سلسلے میں فیصلہ سازی ملکی محکمہ دفاع یا پینٹاگون کے ان اعلیٰ ترین رہنماؤں کے سپرد کر دی ہے، جن میں وزیر دفاع کے علاوہ وہ فوجی کمانڈر بھی شامل ہیں، جنہیں ٹرمپ بڑے شوق سے ’میرے جنرل‘ کہتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ جب سے صدر بنے ہیں، انہوں نے افغانستان سے متعلق اپنی انتظامیہ کی پالیسی کے بارے میں بہت ہی کم بات کی ہے۔ لیکن پھر اسی ہفتے ٹرمپ نے یہ اختیار وزیر دفاع جیمز میٹس کو دے دیا تھا کہ وہ افغانستان میں کسی بھی تعداد میں امریکی فوجی دستوں کی تعیناتی سے متعلق ہر وہ حتمی خود فیصلہ کر سکتے ہیں، جو وہ مناسب سمجھتے ہوں۔

’افغانستان اور پاکستان اختلافات افہام و تفہیم سے حل کریں‘

امریکا اور نیٹو اپنے مزید فوجی افغانستان بھیجیں گے یا نہیں؟

افغانستان کے حالات ابھی اور خراب ہوں گے، امریکی انٹیلیجنس چیف

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ پینٹاگون کی طرف سے مبینہ طور پر اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں مزید تین ہزار سے لے کر پانچ ہزار تک نیٹو کے فوجی تعینات کیے جانا چاہییں، جن میں سے ایک خاص تعداد میں فوجی نیٹو کے رکن دیگر ممالک بھی مہیا کریں گے۔

USA PK Präsident Donald Trump nach Schießerei in Alexandria, Virginia
صدر ٹرمپ نے اشارہ دیا کہ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں رد و بدل کا فیصلہ خود پینٹاگون کو کرنا چاہیےتصویر: Getty Images/C. Somodevilla

اس کے برعکس کئی تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر افغانستان میں کسی بھی طرح کی فوجی فتح کے لیے متعدد امریکی صدور کی طرف سے بار بار کی جانے والی گزشتہ کوششوں کے نتائج کو دیکھا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہندو کش کی اس ریاست میں کسی طویل المدتی عسکری کامیابی کے لیے میٹس جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں، اس کے سچ ثابت ہو جانے کا امکان زیادہ نہیں ہے۔

جہاں تک افغانستان کی موجودہ صورت حال کا سوال ہے تو اس وقت وہاں امریکا کے اپنے قریب 8,400  اور نیٹو کے قریب 5,000  فوجی موجود ہیں۔ اگر مزید فوجی بھیجے گئے تو ان مغربی عسکری مشیروں کی تعداد زیادہ ہو جائے گی، جو افغان دستوں کی مشاورت اور تربیت کر رہے ہیں۔

اس تناظر میں یہ بات بھی اپنی جگہ باعث تشویش ہے کہ 2001ء میں افغانستان میں امریکا کی قیادت میں ایک عسکری اتحاد کی اس دور کی طالبان انتظامیہ کے خلاف فوجی مداخلت کے 16 برس بعد بھی اس ملک میں جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور یہ جنگ امریکا کی تاریخ کی بیرون ملک لڑی جانے والی طویل ترین جنگ بھی بن چکی ہے۔