1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں ہلاک ہونے والے جرمن صحافیوں کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی

9 اکتوبر 2006

30 سالہ Karen Fischer اور 38 سالہ Christian Struwe کو جمعہ اور ہفتے کی درمیانی رات کو صوبہ باغلان سے بامیان صوبے کی طرف جانے والے راستے میں نامعلوم افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/DYIl
پولیس، ہلاک ہونے والے دو جرمن صحافیوں کی کارکا معاینہ کرتے ہوئے
پولیس، ہلاک ہونے والے دو جرمن صحافیوں کی کارکا معاینہ کرتے ہوئےتصویر: AP

آج ڈوئچے ویلے میں افغانستان میں ہلاک ہوجانے والے دو جرمن صحافیوں کی یاد میں ایک منٹ تک خاموشی اختیار کی گئی اور ان دو صحافیوں کی صحافیانہ خدمات کوخراج تحسین پیش کیا گیا۔

30 سالہ کیرن فشرKaren Fischer اور 38 سالہ کرسچن شٹروے Christian Struwe کو جمعہ اور ہفتے کی درمیانی رات کو صوبہ باغلان سے بامیان صوبے کی طرف جانے والے راستے میں نامعلوم افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

ڈویچے ویلے کی مرکزی عمارت میں منعقد ہونے والے آج کے پروگرام میں ڈوئچے ویلے کے ڈائریکٹر جنرل ایرک بیٹر مَن نے ان دونوں صحافیوں کے حالات زندگی پر روشنی ڈالی اور افغانستان میں ان کی خدمات کو سراہا۔

کرسچن شٹروے گزشتہ 16 برس سے افغانستان میں موجود تھے اور انہوں نے افغانستان ریڈیو اینڈ ٹی وی RTA کی ترویج و ترقی اور مقامی افغان باشندوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ افغان حکام نے ان دو جرمن صحافیوں کی ہلاکت کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لئے 6 ، افراد کی شناخت کر لی ہے۔

جرمن وزیرخارجہ شٹائن مائر نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے افغانستان میں اس قسم کے وحشیانہ مظالم کو فور ی طور پر رکوانے اور ملزموں کو عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سے جرمنی کی طرف سے کابل کی جمہوری حکومت کی حمایت کرنے کے فیصلے کو اور زیادہ تقویت ملے گی۔ سن 2001 میں بھی ایک جرمن جرنلسٹ Volker Handloik اپنے دو فرانسیسی ساتھیوں کے ساتھ طالبان حملے میں ہلاک ہو گیا تھا۔
ادھر جنوبی افغانستان کے اروزگان صوبے میں نیٹو کی افواج اور مسلح مزاحمت کاروں کے درمیان دو مختلف جھڑپوں میں 25 طالبا ن عسکریت پسندہلاک ہوگئے ہیں۔جبکہ طالبان نے دو پاکستانی ورکزرز کو اغوا کرنے کا دعوی کیا ہے۔

دوسری طرف افغانستان کے مشرقی صوبے ننگر ہار میں سرکاری گاڑی کے قریب ہونے والے بم دھماکے میں 5 ، افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہے ۔ اس گاڑی پر سرکاری افسران گاﺅںکے اس اسکول کو دیکھنے جا رہے تھے جسے طالبان نے گزشتہ روز نذر آتش کر دیاتھا۔

طالبان کے ترجمان ہونے کے دعویدار یوسف احمدی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔دوسری طرف نیٹو کی فوج کے ترجمان Mark Laity نے کہا ہے کہ ستمبر کے مہینے میں طالبان کے حملوں میں کمی آئی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ طالبان اب بھی اپنے خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے اعتبار سے ایک خطرہ ہیں جن میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

ISAF کے مطابق اس سال افغانستان میں 80 خود کش حملے کیے گئے جن میں 142 عام شہری ، 13 غیر ملکی فوجی اور 40 افغان سیکورٹی فورس کے اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔ نیٹو کی فوج کے ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان سے ملحقہ افغانستان کی مشرقی سرحد کے آرپار طالبان عسکریت پسندوں کی نقل حرکت سیکورٹی فورسز کے لئے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔

اطلاعات کے مطابق نیٹو کی فوج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ رچرڈ اسی سلسلے میں بات چیت کے لئے پاکستانی حکام سے ملاقات کرنے والے ہیں۔