1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کانفرنس سے افغان غیر سرکاری اور دوسری تنظیموں کی توقعات

کشور مصطفیٰ31 مارچ 2009

آج 31 اپریل کو ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں افغانستان پر بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے۔ سینکڑوں افغان غیر سرکاری تنظیموں نے ایک جرمن تنظیم کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن و سلامتی کے لئے کچھ مطالبات پیش کئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/HN7F
تنبو نما یا ٹوپی والےبرقعے میں ملبوس افغان خاتونتصویر: AP

افغانستان کی متعدد NGOs اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے ایک عرصے سے افغانستان کی تعمیر نو اور امن و سلامتی کی بحالی کے عمل میں عالمی برادری کے کردار کے بارے میں عدم اطمینان کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ جرمنی میں ماحول پسندوں کی گرینز پارٹی کے سیاستدانوں کی جانب سے بھی اس موضوع کو بار ہا زور و شور سے اٹھایا جاتا رہا ہے کہ جنگ سے تباہ حال افغانستان میں جاری تعمیر نو اور امن و استحکام کے لئے عالمی برادری کی کوششیں آخر اب تک کیوں موثر ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ آخر افغانستان کی سول سوسائٹی کا وہاں آزادی رائے اور قانون کی بالادستی کے حصول سے متعلق عالمی برادری کے وعدوں پر سے اعتماد کیوں اٹھتا جا رہا ہے۔

Frauen im Islam
افغان بیوائیں، ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے ملنے والی خوراک کی منتظرتصویر: AP

افغانستان کی سول سوسائٹی نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ مغربی ممالک، افغانستان کی خواتین کے حقوق سے متعلق نئے قوانین کے نفاذ کے بارے میں گہری سوچ اور تحمل و بردباری سے کام لیں۔ اس ضمن میں بہت بڑی تبدیلیوں کی کوششیں منفی اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔ اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جرمنی کی بوئل فاؤنڈیشن کی کابل متعین عہدیدار بنت شیلیر کہتی ہیں کہ یہاں ہر بہت کچھ نہایت سست رفتاری سے چل رہا ہے۔ ان امیدوں کے برعکس جو ہر کسی نے وابستہ کر رکھی تھیں۔ تاہم ہمیں اس امر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ افغانستان ایک نسبتاً قدامت پسند اور روایتی، رواجی معاشرہ ہے۔ یہاں پر خواتین کے حقوق کے موضوع کو بہت زیادہ اجاگر کرنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ غالبا یہ مغرب کے حق میں ہے اور یہ کہ حقوق نسواں کے اس قسم کے خیالات افغانستان کی ثقافت سے میل نہیں کھاتے۔ اس سلسلے میں ہمیں نہایت محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ ایسی حکمت عملی سے افغانستان کی خواتین کو ان کے حقوق دلوانے کے کاموں میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔

BdT Welt Tag des Wassers
کابل کے نواح میں ایک افغان لڑکی، پینے کے پانی کے لئے دریا پر جاتی ہوئی، اُس کے گدھے پر پلاسٹک کے برتن رکھے ہیں۔تصویر: AP


افغان NGOs نے کابل حکومت اور عالمی برادری سے جو مطالبات کیے ہیں ان میں طالبان کے ساتھ جنگ میں عام شہریوں کوتحفظ فراہم کرنے اور متاثرین کو پہنچنے والے نقصانات کی ممکنہ تلافی نیز ملک میں ایک شفاف اور ذمہ دار نظام حکومت کے قیام کے لئے موثر اقدامات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی برادری اور کابل حکومت کو چاہئے کہ شہریوں کی ہلاکتوں اور ان کی زندگیوں کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بننے والے طالبان عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ افغان سول سوسائٹی نے ایک اور اہم مطالبہ یہ کیا ہے کہ افغانستان کے سیاسی نظام، بالخصوص مصالحت اور مذاکرات کے عمل میں خواتین کو بھرپور طریقے سے شامل کیا جائے۔

بوئل فاؤنڈیشن کے کابل دفتر کی سربراہ بنت شیلیر نے کہا ہے کہ افغانستان کی تعمیر نو کے لئے امداد دینے والے ممالک کے مختلف مفادات ہیں۔ انھوں نے مغربی ملکوں پر الزام عائد کیا کہ یہ افغانستان میں فوجی کارروائیوں پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں اور اس کے سبب انسانی حقوق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ایک طرف تو امداد دینے والا ہر ملک اپنے مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے کام کر رہا ہے۔ دوسری جانب عملی طور پر بہت کم چیزیں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جن کے ایک ہی طرح کے مقاصد اور مفادات ہیں وہ بھی تعاون اور اشتراک عمل کے ساتھ تعمیر نو کے کام کو عملی طور پر آگے نہیں بڑھا رہے۔ یہ امر واضح ہے کہ ہر کوئی اپنے ادارے اور اپنی فوج کے تحفظ کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ ایسے میں انسانی حقوق بری طرح پامال ہو رہے ہیں۔:

افغان سول سوسائٹی کا ایک اور اہم مطالبہ یہ ہے کہ صدارتی انتخابات سے پہلے ملک میں آزاد میڈیا کے کردار کو فروغ دیا جائے اور افغانستان میں قائم Media Complaints Commission پر سے حکومت کے دباؤ اور اثر ورسوخ کو ختم کیا جائے۔ اس کے علاوہ انتخابات کے موقع پر مبصرین اور نگران اداروں کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں کے تحفظ کی ضمانت بھی دی جائے۔