1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کی سلامتی

Qurratulain Zaman30 ستمبر 2008

گزشتہ اتوار ایک برطانوی اخبار میں انکشاف کیا گیاکہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان خفیہ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور سعودی عرب ان امن مذ اکرات میں ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/FRf3
تصویر: picture-alliance/ dpa

اخبار کی رپورٹ میں مذید کہا گیا کہ ان مذاکرات کو بر طانیہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ تا ہم افغان وزیر خارجہ رنگین سپانتہ نے طالبان اور افغان حکومت کے مابین کسی طرح کے مذاکرات کی تصدیق کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین کسی قسم کے مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔

افغان صدر حامد کارزائی کا کہنا ہے کہ جب تک دھشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا تب تک افغانستان کی سلامتی خطرے میں رہے گی۔ ’’ہم بلکل صحیح راستے پر چل رہے ہیں۔ افغانستان میں سب کچھ ٹھیک طرح سے چل رہا ہے لیکن سلامتی کی صورتحال سب سے بڑا سوال ہے۔ دھشت گردی کے خلاف جنگ اس طرح نہیں لڑی جا رہی جیسا کہ ہم چاہتے ہیں اور جیسے ہمیں لڑنی چاہیے۔ کیونکہ ہم نے ان ٹھکانوں کو نشانہ نہیں بنایا جو دھشت گردوں کو ہر طرح کی مدد فراہم کرتے ہیں ۔‘‘

دوسری جانب طالبان کی جانب سے بھی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی تردید کی گئی ہے اور خبر رساں ادارے رائٹرز کو بھیجے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان حکومت کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے حوالے سے کوئی مذاکرات نہیں کر رہے ہیں ۔ ’’ طالبان افغانستان میں موجود اتحادی افواج کے خلاف اپنی جنگ تب تک جاری رکھیں گے جب تک وہ افغانستان کی سرحدوں سے باہر نہیں نکل جاتے۔ ‘‘ طالبان قیادت نے کہا ہےکہ وہ خفیہ مذاکرات کے حامی نہیں ہیں ۔

افغانستان میں موجود نیٹو کے جرمن جرنیل ای گون رامس افغانستان کی عسکری صورتحال کو کشیدہ قرار دیتے ہیں : ’’افغانستان کی عسکری صورتحال کو فی الحال تشویش ناک ہی کہا جا سکتا ہے ہم وہاں بہت سی کاروا‍ ئیاں کر رہےہیں جیسے کہ آئی سیف کی سر گرمیاں۔ مختصراً میں یہ کہوں گا کہ وہاں پر عسکری توازن ہے لیکن افغانستان کا بیشتر حصہ ہمارے کنٹرول میں ہے۔ ‘‘

علاوہ ازیں ایک وڈیو میں گل بدین حکمت یا ر نے گزشتہ ماہ ہلاک ہونے والے دس فرانسیسی فوجیوں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ حزب اسلامی نامی تنظیم نے اتحادی افواج کے خلاف مزید حملوں کی دھمکی بھی دی ہے۔

نیٹو کے جرمن جرنیل ای گون رمس موجودہ صورتحال کو جنگ کی سی کہتے ہیں : ’’میرا خیال میں افغانستان میں جنگ کی سی صورتحال پائی جاتی ہے۔ لیکن میں یہ کہنے سے گریز کروں گا کہ وہاں ایک جنگ جاری ہے کیونکہ جنگ کی اصطلاح بین الاقوامی قوانین کے ضمن میں استعمال کی جانی چائیے۔‘‘ افغان حکومت اور طالبان قیادت کی تردید کے باوجود مبصرین کا کہنا اگر طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی خبریں واقعی صحیح ہیں تو یہ ایک حیرت انگیز بات ہو گی۔