1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کے  کشمش خانوں میں جدت، کسان پرامید

بینش جاوید AFP
21 دسمبر 2017

افغانستان میں کشمش کی پیداوار کو بہتر کرنے کی خاطر افغانستان کی وزارت زراعت اور کچھ امددای تنظیمیں  افغان معاشرے کے روایتی ’کشمش خانوں‘ کو جدید بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2pleS
Afghanistan Rosinen Produktion Raisin
تصویر: Getty Images/W.Kohsar

افغان کسان عبدالجلیل مٹی کے بنے اس کمرے میں بیٹھا ہے، جہاں صدیوں سے اس کا خاندان انگوروں کو سُکھانے کا کام رہا ہے۔  مٹی کی یہ روایتی جھونپڑیاں جنھیں ’کشمش خانے‘ بھی کہا جاتا ہے، طویل عرصے سے انگوروں کے بیج نکالنے اور انہیں سکھانے کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔ افغانستان میں مگر اب ان کشمش خانوں کو جدید بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ایک وقت تھا جب دنیا بھر میں کشمش کی کل پیداوار کا دس فیصد حصہ افغانستان کا ہوتا تھا لیکن چار دہائیوں سے جاری جنگ اور تنازعات کے باعث اب کشمش کی کل پیداوار میں افغانستان کا حصہ صرف دو سے تین فیصد رہ گیا ہے۔

 گلزار نےنیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،’’ کشمش کے ان نئے گھروں میں زیادہ گنجائش ہے اور ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے، انگوروں کو خشک کرنا۔‘‘

Afghanistan Rosinen Produktion Raisin
گزشتہ برس افغانستان میں نو لاکھ ٹن انگوروں کی پیداوار ریکارڈ کی گئی تھیتصویر: Getty Images/W.Kohsar

واضح رہے کہ اس جنگ زدہ ملک میں زراعت معیشت کا اہم ترین حصہ ہے اور افغان شہریوں کی سب سے زیادہ تعداد اسی شعبے سے وابستہ ہے۔ افغانستان میں انگوروں کی ایک سو سے زائد اقسام اگائی جاتی ہیں۔ ان انگوروں کا ذکر افغان شاعری اور محاوروں میں بھی نظر آتا ہے۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کیوں کہ افغانستان میں شراب بنانے اور اس کی فروخت پر پابندی عائد ہے، اس لیے زیادہ تر کسان انگوروں سے کشمش بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس خشک پھل کو ذخیرہ کرنا بھی آسان ہے اور اس کی اچھی قیمت بھی وصول ہوجاتی ہے۔

Afghanistan Rosinen Produktion Raisin
اب کشمش کی کل پیداوار میں افغانستان کا حصہ صرف دو سے تین فیصد رہ گیا ہےتصویر: Getty Images/W.Kohsar

گزشتہ برس افغانستان میں نو لاکھ ٹن انگوروں کی پیداوار ریکارڈ کی گئی تھی لیکن یہ ملک صرف ایک لاکھ گیارہ ہزار ٹن انگور اورصرف پندرہ ہزار ٹن کشمش درآمد کر پایا تھا۔ سرد خانوں کی کمی اور بین الاقوامی منڈیوں کی سخت شرائط کے باعث افغانستان کے زیادہ تر انگور مقامی بازاروں میں ہی سستے داموں فروخت کر دیے جاتے ہیں۔ افغانستان کی وزارت برائے زراعت سے وابستہ عبدالصمد کماوی نے اے ایف پی کو بتایا،’’ نئے کشمش خانوں کی مدد سے مقامی مارکیٹوں میں  انگور وں کی سپلائی محدود کر دی جائے گی ، کشمش کے معیار کو بہتر بنایا جائے گا اور صحیح قیمت بھی وصول ہو سکے گی۔‘‘ لیکن اس کے باوجود یہ مشکل ہے کہ افغانستان روس، متحدہ عرب امارات، بھارت اور پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں اپنی درآمدات بڑھا سکے۔ ایک مغربی ملک سے تعلق رکھنے والے تاجر نے اے ایف پی کو بتایا،’’ افغان کاشت کاروں کے لیے یورپی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنا اب بھی مشکل ہے۔‘‘