1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’افغان تنازعے کے حل میں پاکستان کا کردار اہم‘

30 جون 2010

امریکی صدر کی طرف سے افغانستان کیلئے نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل میک کرسٹل کی برطرفی اور ان کی جگہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کی نامزدگی کے فیصلے نے افغانستان کے مستقبل اور خطے پر اس کے اثرات کے حوالے سے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/O6zU
افغان صدر حامد کرزئی، فائل فوٹوتصویر: AP

افغانستان میں فوجی مداخلت کے آغاز ہی سے امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان پر الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ وہ افغان طالبان کے ایک مضبوط دھڑے ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ کی پشت پناہی کر رہا ہے تاہم پاکستان ان الزامات کی مسلسل تردید کرتا آیا ہے۔

پاک۔افغان تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے بیشتر تجزیہ نگاروں کے مطابق افغانستان کی موجودہ صورتحال خصوصاً امریکی اور اتحادی فوج کی قیادت میں اچانک تبدیلی نے پاکستان کو ’’مستقبل کے افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کیلئے غیر معمولی طور پر متحرک کر دیا ہے۔‘‘

Taliban, Archivbild
بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں پاکستان کے افغان طالبان سے گہرے روابط ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی کے مطابق پاکستان کے افغانستان سے روابط کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور اب پاکستان انہی روابط کی بنیاد پر افغانستان میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنا چاہتا ہے۔’’صرف حقانی نیٹ ورک کی بات نہیں ہے بلکہ سارے افغان طالبان سے پاکستان کے پرانے رابطے ہیں۔ چاہے وہ ملا عمر ہوں یا حقانی، ان سے بات چیت کروانے میں پاکستان مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر طالبان کو افغان مسئلے کے حل میں شامل کرنا ہے تو اس کیلئے پاکستان بہت اہم ملک ہوگا۔

اس ضمن میں حال ہی میں ایک عرب نیوز چینل ’’الجزیرہ‘‘ پر نشر ہونے والی اس خبر کو بھی خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس خبر کے مطابق پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہ کے علاوہ افغان صدر حامد کرزئی نے افغانستان میں قیام امن کیلئے حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کے ساتھ ایک خفیہ ملاقات بھی کی ہے۔ تاہم افغان صدارتی ترجمان کے علاوہ پاکستانی فوج اور افغان طالبان کے ترجمان نے بھی اس خبر کی تردید کی ہے۔

Afghanistan Anti-USA-Demo wg. zehn toten Zivilisten
افغانستان میں نیٹو افواج کی موجودگی کے خلاف ایک مظاہرہ:’’کیا امن قائم کرنے کا مطلب بچوں کو مارنا ہے‘‘تصویر: AP

لیکن دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ حمید گل کے مطابق جلد یا بدیر افغان حکومت کے ساتھ ساتھ امریکی انتظامیہ کو بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑے گا۔ جنرل پیٹریاس کی افغانستان میں امریکی فوجی قیادت سنبھالنے کے بعد مستقبل میں ممکنہ امریکی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے حمید گل

نے کہا:

’’پہلا عمل یہ ہوگا کہ قندھار آپریشن غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا جائے گا کیونکہ یہ جنرل میک کرسٹل کی منصوبہ بندی تھی اور وہ پہلے بھی مرجاہ آپریشن میں ناکام ہو چکے تھے اور ایسی فضاء تیار کی جائے گی جس سے امریکہ افغانستان سے باعزت طریقے سے نکل سکے۔‘‘

حمید گل کے مطابق افغانستان میں قیام امن کیلئے بات چیت کی کامیابی اس بات پر بھی منحصر ہوگی کہ طالبان مستقبل میں افغانستان میں کس طرح کا حکومتی ڈھانچہ چاہتے ہیں اور اس بات کا امکان نظر نہیں آرہا ہے کہ طالبان افغان صدر حامد کرزئی کی سربراہی والی حکومت میں شامل ہو جائیں گے۔

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: گوہر نذیر گیلانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں