1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان خواتین کا امن عمل میں شمولیت کا مطالبہ

کشور مصطفیٰ22 جنوری 2016

جیسے جیسے افغانستان میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی کوششیں زو پکڑتی جا رہی ہیں ویسے ویسے افغان خواتین میں مذاکراتی عمل سے الگ تھلگ رکھے جانے کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HiJv
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Jalali

نیو یارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ رواں ماہ افغانستان امن مذاکرات کے 20 سے زائد راؤنڈز کا انعقاد ہو چُکا ہے جن میں سے کسی ایک میں بھی خواتین موجود نہیں تھیں۔گزشتہ برس طالبان کے وفود کے ساتھ دو ایسے اجلاس میں خواتین شامل تھیں۔ ایک اسلام آباد میں اور دوسرا دوحہ میں منعقد ہوا تھا تاہم ایسا کابل حکومت کی منظوری سے نہیں ہوا تھا۔

اس سال رواں ماہ کے دوران افغانستان، پاکستان، امریکا اور چین کے وفود کے مابین طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی بحالی کے موضوع پر دو راؤنڈز منعقد ہو چُکے ہیں جن میں ایک بھی خاتون موجود نہیں تھی۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ گزشتہ موسم گرما میں کابل حکومت کی طرف سے طویل عرصے تک طالبان کی قیادت کرنے والے لیڈر کے انتقال کی خبر کے اعلان کے بعد سے منقطع ہو چُکا تھا۔

Parlament Afghanistan 2013
افغانستان میں خواتین کی سیاسی عمل میں شمولیت بہت کم ہےتصویر: picture alliance / dpa

گزشتہ چند ماہ سے ان مذاکرات کی بحالی پر غیر معمولی زور دیا جا رہا ہے تاہم طالبان عناصر کی طرف سے خواتین کو اب بھی سفاکی اور تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور افغانستان کی عورتوں میں اب یہ خوف پایا جاتا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کہیں اُن کے اُن حقوق کے کھونے کا سبب نہ بن جائے جو انہوں نے طویل اور دشوار جدوجہد کے بعد کسی حد تک حاصل کیے ہیں۔

بہت سے افراد کے لیے افغانستان کی 15 سالہ جنگ، جو ہزاروں زندگیوں کے خاتمے کا سبب بن چُکی ہے، کا خاتمہ اس دقیانوسی معاشرے میں خواتین کے حقوق کے تحفظ سے کہیں زیادہ بڑی ترجیح ہے۔

طالبان مذاکرات میں خواتین کی عدم موجودگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملکی پارلیمان میں ان کی نمائندگی بہت محدود ہے۔ افغانستان میں حکومتی سطح پر تمام اعلیٰ عہدوں پر مرد ہی فائض ہیں اور سکیورٹی فورسز کا بھی یہی حال ہے۔´خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم عناصر کا کہنا ہے کہ مغرب سے تحصیل یافتہ ٹیکنوکریٹ اور افغان صدر اشرف غنی جنہوں نے خواتین کے آئینی حقوق کے تحفظ کا وعدہ کر رکھا ہے، اپنے وعدوں سے مکر گئے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ سے منسلک ایک ریسرچر احمد شجاع کے بقول،’’حکومت نے متعدد بار اس امر کا اظہار کیا ہے کہ وہ خواتین کے مفادات کو اُس سنجیدگی سے نہیں لیتی جتنا اُسے لینا چاہیے‘‘۔

Parlament Afghanistan 2013
افغان خواتین نے اپنے سیاسی حقوق منوانے کے لیے بہت طویل جدوجہد کی ہےتصویر: picture alliance / dpa

احمد شجاع کا کہنا ہے کہ افغانستان پر یہ فرض بنتا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1325 جو سن 2000 میں پاس ہوئی تھی اُس پر عمل پیرا ہو۔ اس قرارداد کے تحت افغان خواتین کو بھی امن مذاکرات میں شامل کیا جانا چاہیے۔

اس قرار داد سے متعلق اقوام متحدہ کی ایک تجزیاتی رپورٹ گزشتہ برس شائع ہوئی جس میں یہ کہا گیا ہے کہ خواتین کو شامل کرنے سے مذاکراتی عمل کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ خواتین کی شمولیت مذاکرات کی کامیابی کے امکانات کو 20 فیصد تک بڑھا دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں طے پانے والا معاہدہ کم از کم دو سال تک برقرار رہتا ہے۔ س معاہدے کے سبب ہونے والا امن جتنے زیادہ عرصے تک قائم رہے گا اتنے زیادہ امکانات اس بات کے ہوں گے کہ یہ پائیدار ثابت ہوگا۔ اس تجزیاتی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خواتین مباحثے کو وسیع تر کرنے، عمل کو تیز تر بنانے اور معاشرے کے مختلف سیکٹرز کو شامل کرتے ہوئے ان سب کو ساتھ لے کر چلنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہیں۔