1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان خواتین: گھریلو تشدد کے خلاف جدوجہد جاری

23 دسمبر 2011

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق افغانستان عورتوں کے لئے دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک ملک ہے۔

https://p.dw.com/p/13YSo
9 سالہ نازنین گھریلو تشدد کا نشانہ بنائی گئی تھیتصویر: Yakobali Madani

افغانستان جہاں اس جنگ زدہ قوم کی سنسنی خیز کہانیاں میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں، وہیں یورپ میں بھی خواتین پر گھریلو تشدد کے کئی واقعات منظرِعام پر آتے رہتے ہیں۔

نو سالہ نازنین، جو متعدد بار اپنے دو سوتیلے چچاؤں کی ہوس کا شکار بنی، آج بھی سہمی ہوئی سی رہتی ہے۔ اس کی والدہ کا کہنا ہے، ’’مجھے اب بھی اس کی خوفزدہ آنکھیں یاد ہیں۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ میں حکومت سے التجا کرتی ہوں کہ وہ میری بیٹی کے گناہ گاروں کو سخت ترین سزا دے۔‘‘

نازنین جب دو برس کی تھی تو اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ چند سالوں بعد اس کی والدہ نے دوسری شادی کر لی، جس کے بعد اس کے سوتیلے چچا اسے جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ اسے ڈرانے دھمکانےکے لیے اس پر ابلتا ہوا تیل بھی چھڑکتے تاکہ وہ اپنی حالت زار کسی کو بھی نہ بتائے۔

Afghanistan Nazanin Opfer von Familiengewalt in Afghanistan
نازنین کے والد نے تشدد کی شکایت کرنے پر اس پر گرم تیل پھینک دیا تھاتصویر: Yakobali Madani

نازنین ان لڑکیوں میں سے ایک ہے، جن کی زندگی ان کے ملک ہی کی طرح تنازعات سے عبارت ہے۔ افغانستان کے خود مختار حقوق انسانی کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں پریشان کن حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سال 2009ء میں افغانستان میں ایسے دو ہزار دو سو چھ، سال 2010ء میں دو ہزار چار سو تینتیس اور 2011ء میں دو ہزار سات سو پینسٹھ واقعات منظرِعام پر آئے۔

خواتین کے حقوق کے ایک سرکاری پروگرام کی رابطہ کار لطیفہ سلطانی کا ​​کہنا ہے کہ عصمت دری کے مقدمات میں بھی گزشتہ برس کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے مطابق اس اضافے کی اہم وجوہات ایک غیر محفوظ ماحول اور ملک میں خواتین کا سب سے زیادہ مظلوم طبقہ ہونا ہے۔ وہ افغانستان کے قانون نافذ کرنے والےاداروں کی کمزوری کو بھی اس بات کی اہم وجہ قرار دیتی ہیں، جو ’مجرموں کو چھُوٹ دیتا ہے‘۔

افغانستان میں خواتین کے امور کی ڈپٹی وزیر پلوشہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ اگرچہ نازنین کے ساتھ کی گئی زیادتی کا معاملہ افغانستان میں تشدد کے دیگر واقعات سے کچھ الگ تھلگ نہیں ہے لیکن  میڈیا مجرموں کو سزا دینے کی بات سے  زیادہ ایسے واقعات میں سنسنی خیز کہانیاں تلاش کرتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ طالبان کے زوال کے بعد ملک میں عورتوں کی زندگی میں بہتری اور آسانی دیکھنے میں آئی ہے۔ انہیں اس بات کا افسوس ہے کہ افغانستان میں خواتین کے امور کی وزارت اس معاملے میں کوئی انتظامی حق نہیں رکھتی۔

افغانستان میں خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات کو ماہرین ملک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری، ناخواندگی اور بیداری کی کمی سے منسلک کرتے ہیں۔ دریں اثناء ترقی یافتہ ممالک میں بھی عورتوں کو کسی حد تک بدسلوکی کا سامنا ہے۔

خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری جرمن تنظیم کی جینیفر راٹر کہتی ہیں کہ جرمنی میں ہر چوتھی عورت گھریلو بدسلوکی کا شکار ہے۔ ان کے مطابق اس کی اہم وجہ بے روزگاری یا سماجی فوائد پر پورے خاندان کا انحصار ہے۔

’’اگر ایک عورت اپنے پارٹنر سے زیادہ کما رہی ہے یا اس سے بہتر کام کر رہی ہے تو اسے اپنے پارٹنر کی طرف سے تشدد کا زیادہ خطرہ رہتا ہے۔ حد سے زیادہ شراب نوشی اور تعلیم کی کمی دیگر اہم وجوہات ہیں۔‘‘

وہ کہتی ہیں کہ گھریلو تشدد ہر طبقے، ہر سماج میں ہوتا ہے۔ یورپ بھر میں بارہ سے چودہ  فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔

تاہم جرمنی اور دوسرے مغربی ممالک میں متاثرہ خواتین اور ان کے بچوں کو حاصل حکومتی امداد اور حمایت وہاں صورت حال کو افغانستان سے بالکل مختلف بناتی ہے۔ تمام مغربی ریاستوں میں سرکاری  مراکز اور پناہ گاہیں ہیں، جہاں یہ خواتین اپنے تشدد پسند ساتھیوں سے نجات حاصل کرنے کے بعد سکون اور مدد بھی حاصل کر سکتی ہیں اور مفت مشاورت بھی۔ وہ اپنے پارٹنرز کی طرف سے جسمانی اور ذہنی طور پر ہراساں کیے جانے کی صورت میں بلا خوف و خطر پولیس کے پاس شکایات درج کروا سکتی ہیں۔

افغانستان کی حکومت بھی عورتوں کی حفاظت کے لئے قوانین کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ڈپٹی وزیر کاکڑ بتاتی ہیں کہ وہ خواندگی اور صنفی مساوات کی شرح میں اضافے کے لئے حکومتی سطح پر ورکشاپس اور تعلیمی پروگرام منعقد کرواتی رہتی ہیں۔ وہ امید کرتی ہیں کہ ان کوششوں سے خواتین کے خلاف گھریلو تشدد میں کمی لائی جا سکے گی۔

BdT Internationaler Tag Kampf gegen Gewalt gegen Frauen Guatemala City
افغانستان میں اب خواتین کو سول سماجی تنظیموں اور خود مختار کمیشن تک رسائی حاصل ہےتصویر: AP

 افغانستان میں اب خواتین کو سول سماجی تنظیموں اور خود مختار کمیشن تک رسائی حاصل ہے۔ ذرائع ابلاغ تک رسائی کی سہولت اور شفاف عدلیہ کا نظام بھی اس حوالے سےمؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر خواتین کو ان کے خاندان کے اراکین کی طرف سے مارا پیٹا جا رہا ہے تو وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر پناہ گاہوں میں جا کر پناہ لے سکتی ہیں۔

 افغانستان خواتین کونسل نامی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق ’’وہ ممالک، جو خواتین پر کیے جانے والے گھریلو تشدد کو روکنے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں، وہ اپنی خواتین کو دوسرے درجے کے شہری مانتے ہیں۔ وہ اس بات کا واضح پیغام دیتے ہیں کہ انہیں اس حوالے سے کوئی فکر نہیں ہے۔‘‘

اس کے برعکس اس تنظیم کو ملک کی سکیورٹی کی صورت حال اور اس کے شہریوں کی حالت زار کا اندازہ ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ خواتین کو عمر، رنگ، نسل اور  سماجی یا اقتصادی حیثیت سے قطع نظر گھریلو تشدد کا سامنا رہتا ہے۔

رپورٹ:تمنا جمیلی

ترجمہ: عائشہ حسن

ادارت: امجد علی