1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان صدارتی الیکشن اور خفیہ سیکیورٹی رپورٹ

رپورٹ: مقبول ملک ، ادارت: عابد حسین6 اگست 2009

افغانستان کے صدارتی الیکشن میں ٹھیک دو ہفتے باقی رہ گئے ہیں لیکن کابل حکومت کی تیار کردہ ایک خفیہ دستاویز کے مطابق اس ملک کے قریب آدھے حصے میں طالبان اور دیگر باغی گروپوں کے حملوں کا شدید خطرہ پایا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/J4R9
قندھار صوبے میں تعینات افغان فوجیتصویر: AP

افغانستان کے صدارتی الیکشن میں آج جمعرات کے روز ٹھیک دو ہفتہ باقی رہ گئے ہین لیکن کابل حکومت کی تیار کردہ ایک خفیہ دستاویز کے مطابق اس ملک کے قریب آدھے حصے میں طالبان اور دیگر باغی گروپوں کے حملوں کا شدید خطرہ پایا جاتا ہے۔

افغان حکومت کی تیار کردہ یہ دستاویز دراصل سلامتی کے حوالے سے شدید خطرات کی نشاندہی کرنے والا ایک ایسا خفیہ نقشہ ہے جس میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ ملک میں سلامتی کی مجموعی صورت حال کتنی تشویشناک ہے اور کئی علاقے عملی طور پر کابل حکومت کی دشمن قوتوں کے زیر انتظام ہیں۔

Afghanistan Wahlen Informationsplakat im Provinz Helmand
صدارتی الیکشن کے لئے آزاد الیکشن کمیشن کا معلُوماتی پوسٹر چسپاں کیا جا رہا ہےتصویر: AP

یہ نقشہ افغان وزارت داخلہ، ملکی فوج اور اقوام متحدہ کے شعبہ تحفظ اور سلامتی نے مل کر اسی سال اپریل کے آخر میں تیار کیا تھا جبکہ اس کے بعد کے مہینوں میں ہندو کُش کی اس ریاست کے کئی حصوں میں حالات اور بھی خراب ہو گئے، اور اسی لئے وہاں اتحادی دستوں نے ملکی فوج کے ساتھ مل کر کئی علاقوں، خاص کر جنوبی افغانستان میں، اس لئے کئی مسلح آپریشن شروع کردئے کہ 20 اگست کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے کامیاب انعقاد کو زیادہ سے زیادہ حد تک یقینی بنایا جاسکے۔

خبر ایجنسی روئٹرز نے سلامتی کے خطرات کا اندازہ لگانے کے لئے تیار کردہ اس خفیہ دستاویز کی ایک کاپی حاصل کرنے کے بعد اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ اس نقشے میں افغانستان کے کُل 356 اضلاع میں سے 133 کو سیکیورٹی کے حوالے سے انتہائی پر خطر علاقے قرار دیا گیا ہے جبکہ کم ازکم 13 اضلاع ایسے ہیں جو طالبان یا باغیوں کے دیگر مسلح گروپوں کے کنٹرول میں ہیں۔

اس نقشے میں جنوبی افغانستان کے وسیع تر علاقوں میں باغیوں کے ایسے حملوں کے انتہائی نوعیت کے خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے جو بہت خونریز ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ علاقے مغرب میں فراہ کے صوبے سے لے کر جنوب میں ہلمند کے صوبے، اور مشرق کی طرف پکتیا اور ننگرہار کے ان صوبوں تک پھیلے ہوئے ہیں جو پاکستان کے ساتھ سرحد کے قریب واقع ہیں۔

Präsidentschaftskandidatin Shahla Atta
افغان صدارتی الیکشن میں شریک ایک خاتون امیدوار شہلا عطاتصویر: AP

افغان حکومت کی تیار کردہ لیکن اس غیر اعلان شدہ دستاویز کے مطابق ملک میں بالعموم اور خاص کر صدارتی الیکشن سے قبل اور انتخابات کے دوران، سیکیورٹی کی غیر تسلی بخش صورت حال والے علاقے ملکی دارالحکومت کابل سے تین مختلف سمتوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔

ان میں روایتی طور پر طالبان کا گڑھ سمجھے جانے والے جنوبی اور مشرقی افغانستان کے مختلف ضلعے بھی شامل ہیں، اور کابل کے چند نواحی علاقوں سمیت مغربی اور شمالی افغانستان کے وہ اضلاع بھی جہاں کچھ عرصے سے باغیوں کا اثر و رسوخ مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔

مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق افغانستان میں عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کا ایک ڈرامائی مظاہرہ ابھی حال ہی میں اس وقت دیکھنے میں آیا جب باغیوں نے کابل شہر پر منگل کی صبح نو راکٹ فائر کئے۔ یہ حملے افغان دارالحکومت پر گزشتہ کئی برسوں کے دوران کئے جانے والے اپنی نوعیت کے پہلے حملے تھے۔

سال رواں کے دوران مجموعی طور پر افغانستان میں طالبان کے حملے 2001 میں امریکی فوج کی سربراہی میں، اتحادی دستوں کے ہاتھوں طالبان انتظامیہ کے اقتدار سے علیحدہ کئے جانے کے بعد سے اب تک کی شدید ترین اور ہلاکت خیز کارروائیاں ثابت ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں واضح شدت ہزاروں امریکی فوجیوں کے جنوبی صوبے ہلمند میں جولائی میں شروع کئے گئے اس آپریشن کے دوران آئی، جس کا مقصد اسی مہینے ہونے والے ملکی صدارتی انتخابات سے قبل وہاں طالبان کی طاقت کا خاتمہ اور سلامتی کی صورت حال میں بہتری بتایا گیا تھا۔

ماہرین کے مطابق افغانستان میں آج سے دو ہفتہ بعد صدارتی الیکشن کا کامیاب انعقاد نہ صرف کابل حکومت کے لئے بلکہ افغانستان میں نیٹو اور امریکہ کی نئی عسکری پالیسی کے حوالے سے، صدر باراک اوباما کی سیاست کا بھی ایک بڑا امتحان ثابت ہو گا۔