1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان کے پاکستانی حکومت سے مطالبات

عبدالستار، اسلام آباد27 اپریل 2016

افغان طالبان نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ اپنی عسکریت پسند تحریک کے اہم رہنما ملا عبدالغنی برادر سمیت متعدد طالبان قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔ افغان طالبان کا ایک وفد مطالبات کی ایک فہرست لے کر پاکستان پہنچا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IdZW
Mullah Muhammad Akhtar Mansoor
افغان طالبان کا رہنما ملا اختر منصورتصویر: picture-alliance/dpa/Afghan Taliban Militants/Handout

اہم بات یہ ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے یہ مطالبات کابل انتظامیہ سے نہیں بلکہ اسلام آباد حکومت سے کیے جا رہے ہیں، جس پر حال ہی میں افغان صدر اشرف غنی نے سنگین نوعیت کے الزامات بھی لگائے تھے جب کہ امریکا نے بھی گزشتہ ہفتے کابل میں ہونے والے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی اور شدت پسندوں کے حقانی نیٹ ورک کو اس کا ذمے دار ٹھہرایا تھا۔

واشنگٹن اور کابل ماضی میں کئی مرتبہ یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں ہیں جب کہ کابل حکومت کا مطالبہ ہے کہ پاکستانی حکومت ان افغان دہشت گردوں کو افغان حکام کے حوالے کرے تاکہ ان پر مقدمہ چلایا جا سکے۔

ان حالات میں اب پاکستان کو افغان طالبان کی طرف سے بھی مطالبات کا سامنا ہے۔ افغان طالبان اپنے طور پر ’امارت اسلامی افغانستان‘ نامی جس ریاست کا د عویٰ کرتے ہیں، اس کے ادارہ برائے سیاسی امور کے ترجمان ڈاکڑ محمد نعیم نے ڈوئچے ویلے کوبتایا، ’’چونکہ افغانوں کے پاکستان میں رشتے دار ہیں، ہماری ان کے ساتھ طویل سرحد ہے اور افغانوں سے ان کے تجارتی تعلقات بھی ہیں، اس کے علاوہ افغانوں کی ایک بڑی تعداد وہاں مہاجرین کے طور پر بھی رہ رہی ہے۔ اسی لیے دفترِ سیاسی امور نے ایک اعلٰی سطحی وفد اسلام آباد بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ امارت اسلامی کے رہنما نے اس وفد کو ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستانی حکام سے افغان مہاجرین، سرحدی علاقوں سے متعلق مسائل اور خصوصاﹰ ملا عبدالغنی برادرکی رہائی کے حوالے سے بات چیت کرے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ دورہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہو گا اور اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔‘‘

ڈاکٹر محمد نعیم نے واضح کیا کہ اس دورے کا چار فریقی مذاکراتی گروپ سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا، ’’افغان حکومت سے مذاکرات صرف اسی صورت میں ہو سکتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں قابض فوجیوں کی واپسی ممکن ہو اور ملک میں اسلامی نظام نافذ ہو۔‘‘ ڈاکٹر نعیم نے بہرحال نے اس امر کی کوئی وضاحت نہ کی کہ افغان مہاجرین کو پاکستان میں کن مسائل کا سامنا ہے اور سرحدی امور کے حوالے سے افغان طالبان کا وفد کیا بات چیت کرنا چاہتا ہے۔

Jalaluddin Haqqani
افغانستان اور امریکا نے کابل میں حالیہ خونریز حملے کا ذمے دار عسکریت پسندوں کے حقانی نیٹ ورک کو ٹھہرایا تھا۔ اس تصویر میں، حقانی نیٹ ورک کا رہنما جلال االدین حقانیتصویر: AP

اسی دوران اسلام آباد، لاہور اور پشاور میں پولیس ذرائع نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ حالیہ مہینوں کے دوران ملک میں افغان مہاجرین کی آمد و رفت کی نگرانی سخت کر دی گئی ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اس طرح کی خبریں روزانہ پڑھنے اور سننے میں آتی ہیں کہ مختلف علاقوں میں تلاشی کی دوران درجنوں افغان شہریوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ لاہور میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد اس معاملے میں مزید سختی آ گئی ہے۔

افغان طالبان کے قریب سمجھے جانے والے ایک جہادی رہنما نے، جو کراچی میں مقیم ہیں، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان نے حالیہ مہینوں میں افغان مہاجرین پر بہت سختی کی ہے، سرحد پار جانے والے افغانوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس ساری صورت حال پر افغان طالبان کو تشویش ہے کیونکہ اس سے ان کو حاصل عوامی حمایت متاثر ہوسکتی ہے۔ میرے خیال میں اسی وجہ سے وہ ان امور پر پاکستانی حکام سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں اس جہادی رہنما نے کہا، ’’ملا عبدالغنی برادر کی طالبان حلقوں میں بہت عزت ہے، اسی لیے طالبان قیادت کی یہ خواہش ہے کہ انہیں آزاد کر دیا جائے۔ برادر ایک تجربہ کار طالبان رہنما ہیں اور مذاکرات کے فن سے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں۔ ان کی رہائی سے بات چیت کے اس عمل میں پیشرفت بھی ہو سکتی ہے اور افغان طالبان کے رہنما ملا منصور کی پوزیشن بھی مضبوط ہوسکتی ہے۔ لیکن اس و فد کی آمد کا مقصد صرف یہ دو موضوعات ہی نہیں ہیں بلکہ افغانستان میں دیرپا امن کے لیے مذاکرات کی راہ ہموار کرنا بھی ان وفد کے مشن کا حصہ ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں