1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان مہاجرین کی واپسی، ڈیڈ لائن میں توسیع تقریباﹰ یقینی

عصمت جبیں، اسلام آباد19 جون 2016

پاکستان میں مقیم قریب پندرہ لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو جاری کردہ کارڈوں کی موجودہ میعاد تیس جون کو ختم ہو رہی ہے۔ ابھی تک حکومت نے اس میعاد میں توسیع سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

https://p.dw.com/p/1J9UC
تصویر: Abdur Rashid

پاکستان میں مہاجرین کے طور پر باقاعدہ رجسٹر شدہ لاکھوں افغان شہریوں کو جاری کردہ موجودہ پروف آف رجسٹریشن یا پی او آر (PoR) کارڈز دو ہفتے سے بھی کم عرصے بعد غیر مؤثر ہو جائیں گے۔ پاکستان اگر ان قانونی دستاویزات کی مدت میں ایک بار پھر توسیع نہیں کرتا تو ان مہاجرین کی حیثیت خود بخود غیر قانونی ہو جائے گی۔ لیکن پاکستان نے جو کافی عرصے سے چاہتا ہے کہ یہ افغان مہاجرین واپس اپنے وطن چلے جائیں، ابھی تک اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

توسیع کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا

اس بارے میں اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) کی ترجمان دنیا اسلم خان نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’ابھی تک ہمیں حکومت پاکستان کی جانب سے نئی پالیسی کے طور پر کوئی باقاعدہ جواب موصول نہیں ہوا۔ اس لیے کہ دو سالہ منصوبے کی سمری گزشتہ چھ ماہ سے منظوری کے لیے کابینہ سیکرٹریٹ میں زیر التوا ہے۔‘‘

دنیا اسلم خان نے کہا کہ کوئی نہیں جانتا کہ پاکستانی کابینہ مہاجرین کو جاری کردہ کارڈز کی مدت میں توسیع کی منظوری کب دے گی۔ تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگر کوئی طویل المدت حکمت عملی جلد سامنے نہ بھی آئی تو حکومت شاید پی او آرز کی مدت میں مختصرتوسیع کا اعلان کر دے گی۔

UNHCR Pakistan Dunya Aslam Khan
تصویر: Dunya Aslam Khan

یو این ایچ سی آر کی پاکستان میں ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو پی او آرز پہلی بار سن 2005 کے آخر اور سن 2006 کے اوائل میں نادرا کے تعاون سے جاری کیے گئے تھے۔ اس کے بعد سے ان دستاویزات کی میعاد میں اب تک توسیع کی جاتی رہی ہے۔‘‘

حکومتی ذرائع کے مطابق اس وقت پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد پندرہ لاکھ پچاس ہزار ہے اور قریب اتنی ہی تعداد غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی بھی ہے، جن کی افغانستان واپسی کے لیے اعلان کردہ ڈیڈ لائن 31 دسمبر 2015 کو ختم ہو گئی تھی۔ اس ڈیڈ لائن کے گزر جانے کے قریب چھ ماہ بعد بھی پاکستان کی وفاقی حکومت ان غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی واپسی کے لیے کسی واضح پروگرام کا اعلان نہیں کر سکی۔

اس بارے میں پاکستان کے چیف کمشنر برائے افغان مہاجرین ڈاکٹر عمران زیب خان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اس توسیع کا فیصلہ وزیر اعظم کی سطح پر کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت وزیر اعظم نواز شریف ملک سے باہر ہیں جبکہ ان کے ادارے نے پی او آرز کی میعاد میں توسیع کے لیے درخواست وزیر اعظم ہاؤس کو بھیج رکھی ہے۔ عمران زیب خان نے امید ظاہر کی کہ اس مدت میں کم از کم چھ ماہ کی توسیع تو کر ہی دی جائے گی۔

جب ڈی ڈبلیو نے ڈاکٹر عمران زیب خان سے پوچھا کہ اگر یہ توسیع نہ کی گئی تو کیا ہو گا اور ہر بار صرف توسیع ہی کیوں کی جاتی ہے، کوئی مستقل حل کیوں نہیں نکالا جاتا، تو انہوں نے کہا، ’’یہ سوچنا مشکل ہے کہ پاکستانی حکومت ان مہاجرین کے قانونی قیام کی مدت میں بالکل کوئی توسیع نہ کرے۔ اس لیے کہ جب تک افغانستان کے حالات بہتر نہیں ہوتے، پاکستان کو اس مسئلے کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔‘‘

پاکستانی چیف کمشنر برائے افغان مہاجرین نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’زمینی حقائق کو دیکھیں تو اس مسئلے کا کوئی فوری حل ممکن نہیں۔ ان افغان مہاجرین کو زبردستی نہیں نکالا جا سکتا۔ لیکن حکومت اپنی پوری کوشش کر رہی ہے کہ اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نکالا جائے۔ اس کے لیے وفاقی وزارت داخلہ اور صوبوں کی سطح پر مشاورت بھی ہو رہی ہے۔ پاکستان کیا کچھ کر سکتا ہے، یہ جاننے کے لیے ہمیں ابھی انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘

افغانستان کے صوبے کنڑ سے تعلق رکھنے والا عبدالرشید بھی ایک رجسٹرڈ مہاجر ہے، جو پشاور میں رہتا ہے۔ عبدالرشید نے پشاور سے ٹیلی فون پر ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ اس کی عمر 30 برس ہے اور وہ پاکستان ہی میں پیدا ہوا تھا۔ اس افغان مہاجر نے کہا، ’’میں یہیں پلا بڑھا ہوں اور یہیں پر میں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ میں فروٹ منڈی میں کام بھی کرتا ہوں۔ مجھے تو پاکستان ہی اپنا وطن لگتا ہے، جس سے مجھے محبت ہے۔ اب میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کیسے افغانستان چلا جاؤں؟ میں کیا کروں گا وہاں جا کر؟‘‘

افغانستان کے صوبے کنڑ سے تعلق رکھنے والا عبدالرشید
افغانستان کے صوبے کنڑ سے تعلق رکھنے والا عبدالرشیدتصویر: Abdur Rashid

عبدالرشید نے یہ شکایت بھی کی کہ پشاور سے انجینیئرنگ میں ٹیکنیکل ڈپلومہ کرنے کے بعد بھی پاکستان میں اسے نوکری نہیں دیتا۔ اس افغان باشندے نے کہا، ’’مجھے یہاں کوئی نوکری نہیں دیتا تو وہاں افغانستان میں کون دے گا؟ حکومت کو چاہیے کہ ہمیں مستقل رہائشی پرمٹ جاری کرے اور کم از کم اتنے بنیادی شہری حقوق تو دے کہ ہم یہیں پر اپنی قابلیت کے مطابق نوکریاں کر سکیں۔‘‘

رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے لیے پی او آرز کی مدت میں توسیع کے بارے میں جب ڈی ڈبلیو نے اسلام آباد کے افغان سفارت خانے میں مہاجرین کے امور کے نائب سربراہ ذبیح اللہ سے ان کا موقف دریافت کیا، تو انہوں نے کہا، ’’مجھے امید ہے کہ حکومت پاکستان اس میعاد میں بہت جلد توسیع کر دے گی، ورنہ افغان مہاجرین کے مسائل مزید بڑھ جائیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ متعلقہ پاکستانی وزارت نے افغان سفارت خانے سے وعدہ کیا تھا کہ اس مدت میں دسمبر 2016 تک کے لیے توسیع کر دی جائے گی۔

مہاجرین کی ممکنہ واپسی اور افغانستان کے داخلی مسائل کے بارے میں ذبیح اللہ نے کہا، ’’افغانستان کے حالات بہت خراب ہیں۔ معشیت تباہ حال ہے۔ سکیورٹی کے مسائل بھی ہیں۔ ایسے میں ان مہاجرین کی افغانستان واپسی اور وہاں آباد کاری مشکل ہو گی۔ وہ پاکستان سے اپنی فوری واپسی کے لیے ذہنی اور اقتصادی طور پر بھی تیار نہیں ہیں۔ فی الوقت توسیع کر دی جائے، جونہی وہاں حالات بہتر ہوئے، یہ مہاجرین خود ہی واپس جانا چاہیں گے۔ فوری طور پر یہ واپسی ممکن نظر نہیں آتی۔‘‘

پاکستان میں ریاستی اور سر‌حدی علاقوں کے امور کی وفاقی وزارت یا سیفران (SAFRON) نے تمام صوبوں کو رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے روک رکھا ہے۔ ذرائع کے مطابق افغان حکومت، یو این ایچ سی آر اور سیفران کے اعلیٰ حکام کی ایک سہ فریقی ملاقات پاکستان میں انیس جولائی کو متوقع ہے، جس میں افغان وفد کی قیادت مہاجرین کے امور کے ملکی وزیر کریں گے۔