1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’افغان مہاجرین کی واپسی‘، کابل حکومت بھی فعال

فرید اللہ خان، پشاور22 جولائی 2016

دو دہائیو‍ں میں پہلی مرتبہ افغان حکومت نے باقاعدہ طور پر پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے مہم کا آغاز کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JU2S
Afghanische Flüchtlinge in Pakistan
تصویر: DW/F. Khan

افغان حکومت نے سیاستدانوں اور سفارتکاروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی میں اپنا کردار ادا کریں۔ افغان حکومت نے اس مہم کو ’خپل وطن گل وطن‘ کا نام دیا ہے۔

پشاور میں تعینات افغان قون‍صل جنرل عبداللہ وحید پویان نے سوشل میڈیا پر اپنے ہم وطنوں کے نام ایک ویڈیو پیغام میں انہیں افغانستان واپس جانے اور اپنے ملک کی بحالی اور تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔

پویان کا کہنا ہے، ’’اپنے وطن واپس جاکر بحالی اور تعمیر نو میں اپنا حصہ ڈال کر مشکلات سے بچیں۔‘‘ انہوں نے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں پر زور دیا کہ وہ ’خپل وطن گل وطن‘ نامی اس مہم کو کامیاب بنائیں۔

پویان نے کہا، ’’افغانستان کو آپ لوگوں کی ضرورت ہے۔ یہاں کی مشکلات سے نجات پائیں اور اپنے وطن واپس جاکر عزت سے زندگی گزاریں۔‘‘ اس افغان سفارتکار کا اپنے لوگوں کے نام پیغام میں مزید کہنا ہے کہ مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کی جانب سے فراہم کردہ امدادی رقم انتہائی کم ہے لیکن افغان حکومت اس میں اضافے کے لیے کوشاں ہے تاکہ واپس جانے والے افغان اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں‘‘۔

اقوام متحدہ کی کوششیں

اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کی جانب سے پشاور میں رضاکارانہ طور پر مہاجرین کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ حکام کے مطابق واپسی کے لیے امدادی پیکج میں اضافے کے باوجود افغان مہاجرین کی واپسی میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔

Afghanische Flüchtlinge in Pakistan
اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کی جانب سے پشاور میں رضاکارانہ طور پر مہاجرین کی واپسی کا سلسلہ جاری ہےتصویر: DW/F. Khan

جب اس سلسلے میں یو این ایچ سی ار کے آفیسر حمید خان سے بات کی گئی توان کا کہنا تھا، ’’گزشتہ ساڑھے چھ ماہ کے دوران پورے ملک سے بارہ سو کے قریب افغان خاندان واپس گئے ہیں۔ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو فی کس چار سو ڈالر دیے جاتے ہیں جبکہ ضروری اشیا بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ ان لوگوں کا ڈیٹا اسلام آباد اور کوئٹہ بھیج دیا جاتا ہے، جہاں اسے سسٹم سے نکال دیا جاتا ہے۔ یوں اگر یہ مہاجرین واپس دوبارہ پاکستان بھی آ‍نے کی کوشش کریں گے تو غیرقانی افغان مہاجرین یو این ایچ سی آر کی سہولیات سے استعفادہ نہیں کرسکیں گے۔‘‘

افغان مہاجرین کی سب سے زیادہ تعداد خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔ تین دہائیاں گزر جانے کے بعد اب ان علاقوں کے عوام بھی افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے باقاعدہ احتجاج پر اتر ائے ہیں۔

خیبر ایجنسی اور مومند ایجنسی سمیت بعض علاقوں میں مہاجرین کو علاقہ چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دی جاچکی ہے جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا بھر میں صوبائی حکومت نے غیر قانونی افغان مہاجرین کے خلاف کاروائی شروع کر دی ہے۔

پشاور پولیس کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آپریشن عباس مجید مروت نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’صرف ضلع پشاور میں ساڑھے چھ ماہ کے دوران آٹھ ہزار تین سو غیر قانونی افغان باشندوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے بعض سنگین جرائم میں ملوث ہیں جبکہ غیر قانونی افغانوں کو جیل بھیج دیا جاتا ہے، جہاں سے انہیں قانون کے مطابق ملک بدر کیا جاتا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے پولیس کو واضح ہدایت کی گئی ہے کہ سفری دستاویزات رکھنے والوں کو تنگ نہ کیا جائے.

جعلی دستاویزات کا مسئلہ

پولیس جہاں پاکستان میں مقیم غیرقانونی افغان مہاجرین کے خلاف کاروائی کررہی ہے، وہیں غیرقانونی طور پر پاکستانی قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانے والوں کے خلاف بھی کارروائی کا اغاز کر دیا گیا ہے۔

Afghanische Flüchtlinge in Pakistan
دو دہائیو‍ں میں پہلی مرتبہ افغان حکومت نے پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے مہم کا آغاز کیا ہےتصویر: DW/F. Khan

حکومت نے جعلی دستاویزات بنانے والے افغان باشندوں کی نشاندہی کرنے والوں کے لیے انعام دینے کا اعلان بھی کیا ہے، جس کی وجہ سے نشاندہی کا عمل تیز ہوگیا ہے۔ پشاور پولیس کے مطابق اب تک گیارہ مشتبہ لوگوں کو جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنانے پر گرفتار کیا گیا ہے۔

مقامی اہلکاروں کی ملی بھگت سے ہزاروں کی تعداد میں افغان مہاجرین پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا چکے ہیں۔ افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جہاں سرکاری محکموں میں ملازمت کرتی ہے وہیں یہ افغان مہاجرین پاکستانی دستاویزات پر بیرون ملک بھی کام کر رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید