1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان رکن پارلیمان کی رہائش گاہ پر حملہ، سات افراد ہلاک

عاطف بلوچ، روئٹرز
22 دسمبر 2016

بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب افغان دارالحکومت کابل میں ایک رکن پارلیمان کی رہائش گاہ پر ہونے والے حملے میں دو بچوں سمیت سات افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2Uhe6
Afghanistan Anschlag auf Moschee in Kabul
تصویر: Reuters/O. Sobhani

رات کے وقت یہ حملہ طالبان کی جانب سے کیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ تین طالبان عسکریت پسند اسلحے سے لیس اس عمارت میں داخل ہو گئے، جو رکن پارلیمان میرولی کی رہائش کے لیے مخصوص ہے۔ یہ تینوں حملہ آور سکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے۔

رکن پارلیمان میر ولی، جو ہلمند صوبے کی نمائندگی کرتے ہیں، اس حملے میں بچ گئے۔ بتایا گیا ہے کہ حملے کے وقت وہ عمارت سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے، تاہم انہیں معمولی چوٹیں آئی ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ اس لیے کیا گیا کیوں کہ اس عمارت میں ہلمند کے حوالے سے فوجی کمانڈروں کی ایک اہم میٹنگ ہونے جا رہی تھی۔

طالبان کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حملے میں کم از کم بیس مسلح افراد اور اہم اہلکاروں کو ہلاک کر دیا گیا۔ یہ بات اہم ہے کہ ماضی میں بھی طالبان ایسے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے آئے ہیں۔

خبر رساں اداروں کے مطابق حالیہ کچھ عرصے میں افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور وہاں پرتشدد واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھی ہے۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کا کہنا ہے کہ سن 2014ء کے اختتام پر افغانستان میں غیرملکی عسکری آپریشن کے اختتام اور وہاں سے بڑی تعداد میں نیٹو افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے اپنی کارروائیوں کو وسعت دی ہے اور ملک کے کئی علاقوں میں حکومتی عمل داری برائے نام ہے۔ کچھ ماہ قبل طالبان نے شمالی شہر قندوز پر بھی ایک بڑا حملہ کیا تھا، تاہم سکیورٹی فورسز نے امریکی فوجیوں کی مدد سے اسے ناکام بنا دیا تھا۔

افغانستان میں اب بھی قریب دس ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں، تاہم وہ زیادہ تر تربیت اور معاونت کے شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں جب کہ عسکریت پسندوں کے خلاف عسکری آپریشنز میں زیادہ تر افغان فوج ہی آگے آگے دکھائی دیتی ہے۔