1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقتصادی ترقی کے ثمرات خاص طبقوں تک محدود

17 ستمبر 2009

جرمنی کے اشتراک سے منعقدہ ایک علاقائی کانفرنس میں ماہرین نے کہا کہ زیادہ تر ایشیائی ممالک میں گزشتہ ایک دہائی میں زبردست اقتصادی ترقی ہوئی ہے، لیکن اس ترقی کی ثمرات تمام طبقوں تک نہیں پہنچ رہے۔

https://p.dw.com/p/Jim6
تصویر: AP

اس دو روزہ کانفرنس کا انعقاد وفاقی جرمنی کی اقتصادی تعاون اور ترقی کی وزارت اور بھارت کی منصوبہ بندی کمیشن نے کیا۔ اس کانفرنس میں ایشیا اور یورپ کے 20 ملکوں کے ماہرینِ اقتصادیات‘ پالیسی سازوں‘ سول سوسائٹی اور بڑے صنعتکاروں کے نمائندوں نے میعاری اور پائیدار ترقی کا راستہ تلاش کرنے اور مستقبل میں تعاون کے لئے ایک نیٹ ورک تیار کرنے کے سلسلے میں تبادلہء خیال کیا۔

Anzeigentafel an der Börse in Bombay verkündet den Rekord Börsenindex von 20.000 Punkten
بے سروپا معاشی ترقی سے دیرپا اقتصادی ترقی بہتر ہےتصویر: AP

کانفرنس میں شریک ماہر اقتصادیات پروفیسرجے ایس سوڈھی نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حالانکہ پچھلے ایک دہائی کی دوران ایشیائی ملکوں میں ایک طرف تو زبردست اقتصادی ترقی ہوئی ہے لیکن دوسری طرف وہان سماجی اور معاشی ناہمواری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس عمل سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس ترقی سے صرف ایک خاص طقے کو ہی فائدہ ہورہا ہے۔

جرمنی کی اقتصادی تعاون اور ترقی کی وزارت کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر فریڈرش کیشالٹ نے بتایا کہ اس کانفرنس میں انہوں نے جامع ترقی کے مختلف جرمن ماڈل بھی بحث کے لئے پیش کئے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک میں جامع ، مثبت اور پائیدار ترقی کے لئے ضروری ہے کہ عوام کی ضروریات کا خیال رکھا جائے اور صحت اور تعلیم کے شعبوں مےں سرمایہ کاری کی جائے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ایشائی ممالک میں ان شعبوں میں بہتری لانے کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے جارہے۔

کیشالٹ نے کہاکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایشیا میں گزشتہ دہائی میں زبردست ترقی ہوئی ہے، لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ دنیا کی دوتہائی غریب آبادی ایشیا میں رہتی ہے۔ اس لئے ترقی کی ماڈل میں اور بھی سماجی اور ماحولیاتی عناصر کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے اور اچھی حکومت کی ضمانت بھی ضروری ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ حکومت کے کام کاج کا احتساب اور حکومتی امور میں شفافیّت ہو۔

کیشالٹ نے کہا کہ جرمنی بھی بھارت کے کئی تجربات سے فائدہ اٹھارہا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان پچھلے پچاس برسوں کے دوران باہمی تعاون کے امور میں بہتری آئی ہے۔

ماہر اقتصادیات پروفیسر جے ایس سوڈھی نے بھی کہا کہ اس کانفرنس میں یہ بات طے کی گئی ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کو ایک دوسے کے کامیاب تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اس سلسلے میں انہوں نے نیپال میں غربت کے خاتمے کے لئے چلائے جانے والے پروگرام اور ویت نام کے پروگرام کا ذکر کیا۔ویت نام میں پچھلے آٹھ برسوں کے دوران خط افلاس کی شرح 20 فیصد سے گھٹ کر دس فیصد رہ گئی ہے۔

ڈاکٹر کیشالٹ نے اس موقع پر بتایا کہ جرمنی نے بھارت میں پولیوکے خاتمے کے لئے آج ہی 70 ملین امریکی ڈالر کے گرانٹ کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر بتایا کہ ترقی کے لئے صرف سرکاری امداد کافی نہیں ہوتی، بلکہ اس میں پرائیوٹ سیکٹر کا تعاون بھی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ بے سروپا ترقی کے بجائے میعاری ترقی زیادہ اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میعاری ترقی ہی بالآخر سود مند ثابت ہوتی ہے۔ دریں اثنا جرمنی اور بھارت نے قدرتی وسائل کے مینجمنٹ کے سلسلے میں 19.4 ملین یورو کے ایک معاہدے پر یہاں بدھ کو دستخط کئے۔

رپورٹ: افتخار گیلانی

ادارت: انعام حسن