1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقدامات پر عملدرآمد نہ ہوا تو يورپی ساکھ کو خطرہ لاحق ہے

Bernd Riegert / عاصم سليم26 اکتوبر 2015

ڈی ڈبليو کے تبصرہ نگار بيرنڈ ريگرٹ کا کہنا ہے کہ مہاجرين کے بحران سے نمٹنے کے ليے يورپی يونين نے ہنگامی بنيادوں پر جن اقدامات پر اتفاق کيا ہے، ان کا نتيجہ خيز ہونا لازمی ہے ورنہ يورپی يونين خطرے ميں پڑ سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1GuQv
تصویر: Getty Images/AFP/E. Barukcic

بيرنڈ ريگرٹ کہتے ہیں کہ مغربی يورپ پہنچنے کے خواہاں پناہ گزينوں کے راستے ميں پڑنے والے مشرقی يورپی ممالک کی جانب سے الزامات کے تبادلے، دھمکيوں اور شديد دباؤ کے بعد کہيں جا کر يہ ممالک فوری طور پر کچھ اقدامات پر بالآخر متفق ہو گئے ہيں۔ اہم بات يہ ہے کہ کم از کم اتفاق رائے تو قائم ہو گيا ہے۔ مہاجرين کی يورپ آمد کے سبب نمودار ہونے والے ’شرمناک بحران‘ کے حل کے ليے منصوبہ يورپی کميشن کے صدر ژاں کلود يُنکر نے چھبيس اکتوبر کو برسلز ميں منعقدہ ايک ہنگامی اجلاس ميں پيش کيا۔

سمٹ کی ابتداء ميں بلقان ممالک کے رہنما اُس وقت تک ايک دوسرے پر الزامات لگاتے اور کيچڑ اچھالتے رہے جب تک مسئلے کی سنجيدگی نے انہيں سمجھوتے پر مجبور نہ کر ديا۔ کھانے پينے کی اشياء اور رہائش کے بندوبست کے فقدان کے سبب پناہ گزينوں کی حالت زار سميت يورپی يکجہتی کا خيال بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔بيرنڈ ريگرٹ کے بقول اگر اب حکومتيں طے شدہ اقدامات پر عملدرآمد سے قاصر رہيں، تو يورپی يونين کی ساکھ کو خطرہ لاحق ہے۔

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کہتے ہیں کہ چند حاليہ واقعات ميں يورپی سربراہی اجلاسوں ميں فيصلے تو کيے جاتے رہے ہيں اور ان پر اتفاق رائے بھی ہوتا رہا ہے تاہم عملدرآمد نہيں ہو سکا ہے۔ يہ تازہ ترين ہنگامی منصوبہ بلقان ممالک سے گزرنے والے راستے پر موجود مہاجرين کی صورتحال کو سنبھالنے کا شايد آخری موقع ہے۔ اگر حکام جلد ہی ايک لاکھ پناہ گزينوں کے ليے رہائش اور اندراج کی سہوليات فراہم کر سکيں تو يہ اہم پيش رفت ہو گی۔ پھر کئی ممالک کے ليے ايسا بھی ممکن نہيں ہو گا کہ وہ مہاجرين سے نمٹنے کے ليے اُنہيں صرف اگلے ملک منتقل کر ديں۔

بيرنڈ ريگرٹ سمجھتے ہیں کہ موجودہ بحران ميں يونان کا کردار کافی اہم ہے۔ اسی ملک سے ہزارہا پناہ گزين يورپ ميں داخل ہوتے ہيں تاہم اب تک ايتھنز حکومت اپنی ذمہ داريوں اور وعدوں کو پورا کرنے ميں ناکام رہی ہے۔ يہ بہانہ ’ہماری اقتصادی صورتحال اچھی نہيں، ترکی کی غلطی ہے‘ اب نہيں چلے گا۔ يونانی وزير اعظم اليکسس سپراس کو اب کچھ کر دکھانا ہو گا۔ احتياط کے طور پر يورپی يونين نے سيراس کو واضح کر ديا ہے کہ وہ کافی حد تک يورپی مالياتی امداد پر دارومدار کرتے ہيں۔

دوسری جانب ہنگری کے وزير اعظم وکٹور اوربان بھی اپنی حکمت عملی کے سبب تنقيد کی زد ميں رہے ہيں۔ وہ يہ کہہ چکے ہيں کہ سرحد کی بندش کے بعد ان کا ملک مہاجرين کے راستے ميں نہيں پڑتا اور نتيجتاً اب وہ اس صورتحال کو صرف مبصر کی حيثيت سے ديکھتے ہيں۔ جواب ميں يورپی يونين نے انہيں بھی ياد دلايا ہے کہ ان کا ملک يورپی امداد وصول کرنے کے معاملے ميں سرفہرست ممالک ميں سے ايک ہے۔

بيرنڈ ريگرٹ مزید کہتے ہیں کہ کہيں اخلاقی ذمہ داری بھی بنتی ہے۔ مسئلے سے منہ پھير لينا يا بھاگ جانا ۔۔۔ مسائل سے نمٹنے کا يورپی لائحہ عمل نہيں۔ اگرچہ برسلز ميں ہونے والی سمٹ ميں يہ بات واضح کر دی گئی ہے ليکن ضرورت کی بنياد پر يہ يکجہتی آخر کب تک قائم رہ سکتی ہے؟

يہ امر اہم ہے کہ اتوار کو ہونے والی سمٹ سے پناہ گزينوں کے اس بحران کا حل تو نہيں نکلا اور نہ ہی اس سے مغربی يورپ پہنچنے کے خواہاں مہاجرين کی تعداد ميں کمی کے امکانات ہيں تاہم اس سمٹ ميں ہونے والی پيش رفت کے نتيجے ميں اس بحران سے زيادہ انسان دوست طريقے سے نمٹا جا سکتا ہے۔ مہاجرين کا يونان سے جرمنی منتقلی کا عمل بھی ممکنہ طور پر زيادہ نظم و ضبط کے ساتھ ہو گا۔ البتہ جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کے سامنے بھی بہت بڑا چيلنج ہے کيونکہ جرمنی ميں روزانہ ہزاروں پناہ گزينوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہے گا۔

Deutsche Welle Bernd Riegert

جب تک يورپی يونين کی بيرونی سرحدوں کی نگرانی نہيں بڑھائی جاتی يا پناہ گزينوں کے اندراج کا عمل يونان اور اٹلی ميں ہی نہيں ہوتا، يہ بحران جاری رہے گا۔ ترکی کی جانب سے مزيد اقدامات سامنے آنے ميں وقت لگ سکتا ہے۔ يہاں سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ کيا جرمنی اور چانسلر ميرکل اس وقت تک چيزيں سنبھال سکتے ہيں؟

بلقان ممالک سے گزرنے والے روٹ کے ذريعے مہاجرين کی آمد کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک جرمنی اور آسٹريا ان مہاجرين کو تسليم کرنا جاری رکھتے ہيں۔ اگر جرمنی اور آسٹريا اپنی سرحديں بند کرنے کا فيصلہ کر ليتے ہيں تو بلقان ممالک ميں انتہائی خراب صورتحال پيدا ہو سکتی ہے۔ اس صورتحال ميں چند ممالک کی حکومتوں نے چانسلر انگيلا ميرکل کو کھلے عام دھمکی دی ہے کہ وہ اپنی سرحديں بند کر ديں گے اور ايسی ممکنہ صورت ميں ميرکل کو ذاتی طور پر مہاجرين کی صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرايا جائے گا۔ ايسی کسی ممکنہ صورتحال ميں يورپی يونين کا اختتام ناگزير ہو گا۔

بيرنڈ ريگرٹ کے مطابق اگر سب کچھ صحيح ہوتا ہے تو يورپی يونين کی اتوار کو ہونے والی سمٹ ميں کيے جانے والے فيصلوں پر عملدرآمد کے ذريعے حالات ميں کچھ بہتری رونما ہو گی ليکن مہاجرين کے اس بحران کا طويل المدتی حل تلاش کرنا ہی اصل کام ہے، نہ صرف ان پناہ گزينوں کے ليے بلکہ يورپ کی ساکھ کے ليے بھی۔