1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ کے امن مشنز کا بین الاقوامی دن

امجد علی29 مئی 2009

دنیا کے چار براعظموں میں آج کل اقوامِ متحدہ کے سولہ امن مشن جاری ہیں، جن میں ایک لاکھ تیرہ ہزار افراد خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اِن میں فوج اور پولیس کے سپاہیوں کے ساتھ ساتھ کئی مشیر اور دیگر عہدیدار بھی شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/I0Cn
اقوام متحدہ کی امن فوج دنیا کے کئی علاقوں میں سرگرم عمل ہےتصویر: AP

ناقدین کے خیال میں اِن میں سے بہت سے آپریشن مہنگے اور کم مؤثر ہیں۔ خاص طور پر افریقہ میں زیادہ تر مقامات پر نتائج اقوامِ متحدہ کی توقع کے مطابق برآمد نہیں ہو رہے۔

1999ء کے مقابلے میں اب اقوامِ متحدہ کے امن مشنز کی تعداد سات گنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے لیکن زیادہ مقدار کا مطلب ہمیشہ زیادہ معیار نہیں ہوا کرتا۔ اگرچہ اِن مشنز پر اٹھنے والے سات ارب ڈالر سالانہ کے اخراجات دنیا بھر میں فوج پر خرچ کی جانے والی کُل رقم کا محض صفر اعشاریہ پانچ فیصد بنتے ہیں لیکن ناقدین کے خیال میں کئی مشن حد سے زیادہ مہنگے بھی ہیں۔

اِنہی ناقدین میں شامل ہیں، ماہرین کے ایک گروپ کی ایک رکن ڈاکٹر مونیکا جمعہ، جن کے خیال میں مغربی سوڈان کے بحران زدہ خطے دارفور میں جاری مشن زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہو رہا:’’ایک تو اقوامِ متحدہ کو مطلوبہ تعداد میں فوجی دَستے فراہم نہیں کئے جا رہے۔ کئی ملک اِس لئے اپنے فوجی فراہم نہیں کر رہے کیونکہ اُنہیں اِس مشن کے لئے مطلوبہ بین الاقوامی سیاسی حمایت نظر نہیں آ رہی اور نہ ہی اُنہیں مطلوبہ فوجی ساز و سامان دیا جا رہا ہے۔ دوسرا حکومتِ سوڈان بھی رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ اِس مشن کے لئے حمایت میں اضافہ ہونا چاہیے، ابھی یہ مشن اپنے فرائض انجام نہیں دے پا رہا۔‘‘

Straßenszene in Kinshasa Demokratische Republik Kongo UN Soldaten
ناقدین کے خیال میں اقوام متحدہ کے کئی مشن مہنگے اور کم مؤثر ہیںتصویر: AP

سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1769میں دارفور کے یُونامِڈ مشن کے لئے اکتیس ہزار بیالیس فوجی بھیجنے کا ذکر کیا گیا تھا لیکن اب تک اِس کی محض نصف تعداد دارفور پہنچ پائی ہے۔ اِس دستے کے ناکافی اور کمزور ہونے کے باعث اِسے دارفور کی مقامی آبادی کی بھی حمایت حاصل نہیں ہے۔

دارفور کی طرح ڈیموکریٹک ری پبلک آف کونگو میں جاری اقوامِ متحدہ کے سب سے بڑے مشن کو بھی تنقید کا سامنا ہے۔ شہری آبادی کے قتلِ عام کے الزام کے ساتھ ساتھ امن فوجیوں کی طرف سے جنسی زیادتیوں کے باعث بھی اِس مشن کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچا ہے۔

افریقی امور کے ماہر اُلرِش ڈیلیُس، جن کا تعلق بقا کے خطرےسے دوچار اَقوام کی انجمن سے ہے، کہتے ہیں:’’اقوامِ متحدہ کے کونگو مشن کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اِس کا مقصد واضح نہیں ہو رہا۔ کبھی اِس کے امن فوجی سرکاری دستوں کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف لڑ رہے ہوتے ہیں اور کبھی اِسے خود فوج کے خلاف برسرِ پیکار ہونا پڑتا ہے، جب مثلاً وہ انسانی حقوق پامال کرنے لگتی ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کے امن دستوں کا ڈھانچہ بجائے خود ایک مسئلہ ہے۔ روایتی طور پر سب سے زیادہ فوجی فراہم کرنے والے ممالک بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال ہیں، جن کی افواج بھی بہت بڑی بڑی ہیں۔ اُن کے لئے یہ امن دستے محض ایک پُرکشش موقع کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ زیادہ مؤثر کردار ادا کرنے کے اہل ملک یا تو خود ہی پہلو تہی کر جاتے ہیں یا پھر اُنہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً دارفور کے مشن یُونامِڈ کے لئے جرمنی نے دو سو پچاس فوجی فراہم کرنے کا یقین دلایا تھا، تاہم اقوام‌ِ متحدہ نے اب تک اِن میں سے محض چند ایک فوجی ہی طلب کئے ہیں۔

جہاں جہاں فریقین تنازعے کے حل میں سنجیدہ ہیں، وہاں اقوام متحدۃ کے امن مشن کامیاب بھی ہوئے ہیں، جیسے کہ سیرا لیون یا پھر لائیبیریا میں۔ سیرا لیون کا مشن کامیاب ترین مانا جاتا ہے، جس پر اگرچہ تقریباً تین ارب ڈالر لاگت آئی لیکن یہ مشن پچھتر ہزار جنگجوؤں کو غیر مسلح کرنے، ہیروں کی غیر قانونی تجارت کو روکنے اور ایک خصوصی ٹرائی بیونل قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔