1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’امتحان سے بھاگنے والے بچوں کے ليے امتحان ہی باعث مسرت‘

عاصم سليم27 مئی 2016

شام ميں گزشتہ قريب پانچ برسوں سے جاری خانہ جنگی کے سبب قريب دو ملين بچے تعليم کی سہولت سے محروم ہيں جبکہ اسی دوران مختلف علاقوں ميں کئی مختلف اقسام کے تعليمی نظام بھی چل رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/1IvQJ
تصویر: picture-alliance/AP Photo

شامی باشندے احمد محمد نے کبھی يہ سوچا بھی نہ تھا کہ فائنل امتحان کے پرچے دينا اس کے ليے باعث مسرت بھی ہو سکتا ہے تاہم تقدير اپنے ہی کھيل کھيلتی ہے۔ طويل انتظار کے بعد سترہ سالہ احمد کو اس کے ہم عمر قريب ساڑھے چھ سو ديگر طلباء کے ہمراہ بسوں پر سوار کر کے شامی شہر الحسکہ لے جايا گيا جہاں بالآخر ان بچوں نے اسی ماہ اپنے ہائی اسکول کے امتحانات ديے۔ شمالی صوبے الرقعہ کے مختلف حصوں سے بچوں نے قريب دو سو کلوميٹر کا سفر طے کيا۔

احمد کے بقول سن 2014 ميں اسلامک اسٹيٹ کے شدت پسندوں نے اس کے اسکول پر قبضہ کر ليا تھا۔ اس کے بعد سے احمد نے کلاس روم کی شکل تک نہيں ديکھی۔ وہ بتاتا ہے، ’’انہوں نے ہمارے اسکول کو ايک قيد خانے ميں تبديل کر ديا تھا۔‘‘ احمد کہتا ہے کہ جب کبھی وہ تل ابياد ميں اپنے اسکول کے پاس سے گزرتا، تو اس کا دل بھر آتا۔ وہ اپنے ساتھيوں کے ساتھ بتايا ہر وقت ياد کيا کرتا تھا، جو سب کے سب جنگ سے فرار ہو کر دنيا کے مختلف حصوں کی طرف چلے گئے ہيں۔

احمد کے بقول اب دوبارہ اسکول جانا اس کے ليے بالکل ايسا ہی ہے کہ جيسے اسے ايک نئی زندگی مل گئی ہو۔ اس نے کہا، ’’ميرے ليے مستقبل کافی تاريک تھا ليکن يہ سب کچھ آج بدل گيا ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کے مطابق شام ميں تقريباً دو ملين بچے اسکول جانے اور تعليم سے محروم ہيں
اقوام متحدہ کے مطابق شام ميں تقريباً دو ملين بچے اسکول جانے اور تعليم سے محروم ہيںتصویر: picture-alliance/dpa/Itar Tass/ M. Pochuyev

اقوام متحدہ کے مطابق شام ميں تقريباً دو ملين بچے اسکول جانے اور تعليم سے محروم ہيں۔ اسلامک اسٹيٹ نے اپنے زير قبضہ علاقوں ميں مذہبی تعليمات پر مبنی اپنا ايک مختلف نصاب متعارف کرا رکھا ہے، جس کے ساتھ بچوں کو لڑنے کی تربيت بھی دی جاتی ہے۔

شام ميں پانچ سالہ خانہ جنگی کے نتيجے ميں سرکاری تعليمی اداروں کے فقدان کی وجہ سے تعليم کے فراہمی کے متبادل طريقے نشو نما پا رہے ہيں۔ نيم خود مختار کرد انتظاميہ اپنے علاقوں ميں اپنے اسکول چلاتی ہے، جہاں ايک عرصے سے پابندی کی شکار کرد زبان بھی سکھائی جاتی ہے۔ دريں اثناء باغيوں کے زير کنٹرول علاقوں ميں اپوزيشن کی زير نگرانی مقامی کونسليں اسکولوں کے معاملات ديکھتی ہيں۔