1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امدادی کیمپوں میں غذا اور ادویات کی قلت

30 اگست 2010

سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لئے رات دن ریلیف میں مصروف پاکستانی فوجی اہلکاراورامدادی کارکنوں کے لئے گزشتہ اتوارایک مشکل دن تھا۔ صوبے سندھ کے شہر ٹھٹھ کو سیلاب کے خطرات سے بچانے کے لئے ممکنہ اقدامات کئے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/Oz4d
کیمپوں میں غذا اور ادویات کی شدید قلتتصویر: picture alliance/dpa

صوبے سندھ کے شہر ٹھٹھ کی اکثریتی آبادی، تقریباً 3 لاکھ افراد سیلابی ریلے اور پانی کی سطح میں مسلسل اضافے سے خوفزدہ ہو کر شہر چھوڑ چکے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلابوں سے جنوبی سندھ کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ صوبہ سندھ کے 23 ضلعوں میں سے 19 زیر آب آ چکے ہیں۔ دریائے سندھ میں اس بار کے تیز و تند سیلابی موجوں کے سبب پانی کے حجم میں 40 گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ گزشتہ چند روز کے دوران کم از کم ایک ملین افراد اپنے گھر بار سے محروم ہو گئے ہیں اور محض ٹھٹھہ سے لاکھوں افراد سندھ کے مختلف مقامات کی طرف نقل مکانی کر چکے ہیں۔ اس علاقے میں متعدد بندوں کے ٹوٹنے سے سیلاب کا ریلہ تیزی سے دیہات اور شہروں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اتوار کو افواج پاکستان کے جیالے سپاہیوں نے دریا کے کنارے پشتہ بنانے اور علاقے کو سیلاب سے بچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے ٹھٹھ کی شہری انتظامیہ کے ایک سینئیرآفیسر ہادی بخش کلہوڑو نے کہا ’’ پانی ابھی ٹھٹہ کے اُس مقام سے جہاں پاکستانی فوجی اور مقامی انتظامیہ کے اہکار شہر کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، دو کلومیٹر دور ہے۔ فوج نے بندوں کے ٹوٹنے اور اس میں پڑنے والے شگاف کو دور کرنے کے لئے ممکنہ ذرائع بروئے کار لائے ہیں۔ ٹھٹہ کے تمام اسکول اور دکانیں بند ہو چکی ہیں اور تقریباً تمام شہری محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو گئے ہیں‘‘۔

Pakistan Flut Katastrophe 2010
پاکستانی فوج کے اہلکار امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیںتصویر: AP

دریں اثناء اس ضلع میں پانی کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے تاہم کلہوڑو نے امید ظاہر کی ہے کہ کم از کم ٹھٹہ شہر کو سیلاب سے بچانے کے لئے آئندہ دو روز کے اندر ضروری اقدامات کر لئے جائیں گے۔ اے ایف کے کے ایک نامہ نگار کے مطابق ٹھٹہ کو سجاول ٹاؤن سے ملانے والی سڑک مکمل طور پر زیر آب ہے اور تمام ٹریفک ذرائع بند ہو چکے ہیں۔ ادھر شہری انتظامیہ کے سینئیرآفیسر ہادی بخش کلہوڑو نے مزید بتایا کہ سجاول کے علاقے کا ایک بجلی گھر سیلاب کی زد میں آ گیا ہے۔ دریں اثناء پاکستانی فوج کے انجینئرز نے جنوبی سندھ میں ایک تباہ شدہ بند کی مرمت کرلی ہے اور یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ٹھٹہ کو کراچی سے ملانے والے ہائی وے کو کسی طرح بچا لیں۔

حکومت ملکی تاریخ کی اس خوفناک ترین ناگہانی آفت سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ پاکستان کے بندرگاہی شہر اور ملک کی اقتصادی شہ رگ کی حیثیت رکھنے والے شہر کراچی پر اس وقت غیر معمولی بوجھ ہے، اندرون سندھ سے نقل مکانی کرنے والے تمام شہری کراچی کے مختلف علاقوں میں پناہ لے رہے ہیں۔ سندہ کے ہوم منسٹر ذولفقار مرزا نے کہا ہے کہ امدادی کارکن اور رضاکار ریلیف کیمپس کی طرف جانے سے گھبرا رہے ہیں کیونکہ وہاں امدادی اشیاء کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سندھ کے ہوم منسٹر نے کہا ’ ریلیف کیمپس میں نہ تو کافی مقدار میں غذا ہے نہ ہی ادویات میسر ہیں۔ ہم نے کراچی میں 40 ہزار متاثرین کے لئے کیمپ قائم کیا ہے تاہم اب تک وہاں ایک بھی شخص پناہ لینے کی غرض سے نہیں آیا ہے‘۔

امدادی ایجنسیاں غذا اور پینے کے صاف پانی کی قلت کے سبب گوناگوں بیماریوں اور وبائی امراض کے پھیلنے سے خبر دار کر رہی ہیں۔ انہیں سب سے زیادہ خطرات بچوں کی اموات سے ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں