1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امريکا و پاکستان کے باہمی تعلقات، اونٹ اب کس کروٹ بيٹھے گا؟

عاصم سلیم
14 جولائی 2017

امريکی کانگريس ميں ايک ایسے بل کے مسودے پر بحث جاری ہے جس ميں پاکستان کے حوالے سے نسبتاً سخت رويہ اختيار کرنے کا عنديہ ديا گيا ہے۔ علاقائی صورتحال کے پس منظر میں کیا یہ سود مند ثابت ہو گا؟

https://p.dw.com/p/2gXyQ
Pakistan Afghanistan Grenzschutzbeamter
تصویر: Picture alliance/AP Photo/M. Achakzai

امريکی کانگريس کا ايک پينل اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی سول اور عسکری مالی امداد کو اسلام آباد کے افغان طالبان کے خلاف جنگ ميں مزید تعاون کے ساتھ مشروط کر دیا جائے۔ پاکستان ميں مقامی ذرائع ابلاغ میں شائع کردہ رپورٹوں کے مطابق پينل کے ارکان نے اس موضوع پر بحث جمعرات کے روز شروع کی۔ 2018ء کے ليے ’اسٹيٹ اينڈ فارن آپريشنز ايپروپری ايشنز بل‘ کا مسودہ بدھ کو پيش کيا گيا تھا۔ يہ بل دراصل پاک افغان سرحدی علاقوں ميں دہشت گردی کے خلاف جاری کارروائيوں ميں پاکستان کے کردار کے حوالے سے واشنگٹن کے تحفظات کی عکاسی کرتا ہے۔

’اسٹيٹ اينڈ فارن آپريشنز ايپروپری ايشنز بل‘ کے مسودے ميں يہ تجويز دی گئی ہے کہ اسلام آباد کے ليے تينتيس ملين امريکی ڈالر کی مالی امداد ڈاکٹر شکيل آفريدی کی رہائی اور انہيں تمام الزامات سے بری کر ديے جانے تک روک دی جائے۔ ڈاکٹر آفريدی نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی پاکستان ميں موجودگی کے بارے ميں امريکی حکام کو اطلاع دی تھی۔ کانگريس کے پينل ميں ان دنوں زير بحث اس بل ميں يہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ امريکی سيکرٹری آف اسٹيٹ اس بات کی يقين دہانی کرائيں کہ پاکستان حقانی نيٹ ورک، لشکر طيبہ، جيش محمد اور القاعدہ سميت ملک ميں سرگرم ديگر دہشت گرد تنظيموں کے انسداد سے متعلق کارروائيوں ميں امريکا کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ بل کے مسودے ميں يہ بھی شامل ہے کہ امريکی وزير خارجہ اس بات کی يقين دہانی کرائيں کہ پاکستانی فوج اور انٹيليجنس ايجنسياں امريکا اور افغانستان ميں تعينات اتحادی افواج کے خلاف دہشت گردانہ کارروائيوں ميں معاونت فراہم نہيں کر رہيں۔

امريکی سينيٹ کے ارکان پر مشتمل ايک وفد نے ری پبلکن سينيٹر جان مککين کی سربراہی ميں اسی ماہ کے آغاز ميں پاکستان کا دورہ کيا تھا۔ وفد کے ارکان نے وزير اعظم نواز شريف سے ملاقات بھی کی تھی۔ ان کے اس دورے کا مقصد علاقائی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لينا تھا۔ علاوہ ازيں افغانستان ميں نيٹو اور امريکا کے مزيد دستوں کی تعيناتی بھی ہونے والی ہے اور اس سلسلے ميں پاکستان سے اضافی تعاون کا مطالبہ کيا جا سکتا ہے۔

يہاں سوال يہ اٹھتا ہے کہ آيا ايسی صورتحال ميں پاکستان کے خلاف سختياں متعارف کرائی جا سکتی ہيں۔ يہ جاننے کے ليے ڈی ڈبليو نے مائيکل کوگلمين سے حال ہی ميں بات چيت کی تھی، جو امريکی 'ووڈرو ولسن سينٹر ميں جنوبی ايشيائی امور کے ايک ماہر ہيں اور بالخصوص پاکستان اور افغانستان کے بارے ميں کافی معلومات رکھتے ہيں۔ کوگلمين کے بقول پاکستان کے حوالے سے امريکی پاليسی ميں سختی متعارف کرائے جانے کے قوی امکانات ہيں ليکن فی الحال اور مستقبل قريب ميں بھی يہ ممکن نہيں۔

مائيکل کوگلمين نے مزيد کہا، ’’واشنگٹن کی طرف سے پاليسی کی تبديلی کی صورت ميں پاکستان، چين اور روس کے ساتھ قريبی تعلقات کا خواہاں ہو گا ليکن اس خطرے کو طول نہيں دينی چاہيے۔ پاکستان ويسے ہی اس جانب بڑھ رہا ہے ليکن يہاں يہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہيے کہ بيجنگ اور ماسکو کے افغانستان ميں اہداف امريکی حکومت کے اہداف کے قريب تر ہيں، نہ کہ پاکستان کے۔ روس اور چين افغانستان ميں استحکام کے خواہاں ہيں۔ پاکستان کے طالبان کے ساتھ مبينہ روابط ہيں اور امکاناً افغانستان ميں عدم استحکام ممکنہ طور پر پاکستان کے مفاد ميں ہے کيونکہ اس سے وہاں بھارتی اثر و رسوخ متاثر ہوتا ہے۔‘‘

دوسری جانب مائيکل کوگلمين نے يہ بھی کہا کہ امريکا افغانستان ميں اپنی طويل ترين جنگ لڑ رہا ہے اور اس ملک کی سرحديں پاکستان سے ملتی ہيں، تو پاکستان کی اہميت کو نظر انداز کيا ہی نہيں جا سکتا۔

چمن میں افغان فورسز کی مبینہ فائرنگ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں