1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امريکا پہنچنے والے مہاجرين کی ذہنی صحت کی نگرانی لازمی

عاصم سليم10 فروری 2016

آئندہ مہينوں کے دوران ہزاروں مہاجرين امريکا پہنچنے والے ہيں۔ حکام کو ان کے ليے بنيادی سہوليات کا انتظام کرنا ہو گا تاہم ماہرين کا ماننا ہے کہ شورش زدہ علاقوں سے آنے والے مہاجرين کی ذہنی صحت ايک مسئلہ ثابت ہو سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HsVL
تصویر: picture-alliance/AP Photo/IHH

امريکی ماہرين کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ علاقوں سے آنے والے پناہ گزين تلخ حقائق اور انتہائی دشوار گزار حالات اور واقعات کا سامنا کر چکے ہوں گے اور ايسے منفی تجربات اور ياديں اپنے دماغ سے ہٹانے کے ليے انہيں نفسياتی مدد کی ضرورت پڑے گی۔ گو کہ يہ ايک ايسا معاملہ ہے جسے اب تک نہ تو خود شامی پناہ گزين مانتے ہيں اور نہ ہيں وہ ادارے اور افراد جو ان کے معاملات سنبھاليں گے۔

وورسيسٹر، میساچوسٹس کے رہائشی بتيس سالہ ايحام الحورانی نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ان کے پاس اتنا وقت ہی نہيں کہ وہ اپنی ذہنی صحت کے بارے ميں سوچ بھی سکيں۔ ايک مترجم کی مدد سے اپنی بات سمجھاتے ہوئے انہوں نے بتايا، ’’ہم کافی مشکل حالات سے يہاں آئے ہيں۔ مہاجر کيمپ ميں ہم نے کافی خراب حالات ميں وقت گزارا ليکن اہم بات يہ ہے کہ اب ہم يہاں پہنچ چکے ہيں۔‘‘

امريکا ميں جو ادارے تارکين وطن کی ديکھ بھال کريں گے، ان کا موقف ہے کہ اس وقت مہاجرين کی ذہنی صحت يا اس کی ضروريات کے بارے ميں اندازہ لگانا قبل از وقت ہو گا۔ تاہم ماہرين کے مطابق يہ لازمی ہے کہ نئے آنے والے پناہ گزينوں کی ذہنی و جذباتی حالت و کيفيت پر شروع ہی سے نظر رکھی جائے کيونکہ عموماً ايسی کيفيتوں کے آثار کئی ماہ بعد نمودار ہوتے ہيں۔

ايسے مناظر لوگوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہيں
ايسے مناظر لوگوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہيںتصویر: Getty Images/AFP/T. Mohammed

شام ميں مارچ سن 2011 سے خانہ جنگی جاری ہے اور امريکا نے اب تک صرف ڈھائی ہزار شامی تارکين وطن کو پناہ فراہم کی ہے، جن ميں سے ايک سو کو میساچوسٹس منتقل کيا گيا ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر سے رواں سال اکتوبر کے دوران واشنگٹن انتظاميہ دس ہزار مزيد شامی مہاجرين کو پناہ دينے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ماہرين کے اندازوں کے مطابق تارکين وطن کی دس تا بيس فيصد تعداد جنگی حالات کے سبب نفسياتی مسائل کا شکار ہو سکتی ہے۔

معروف امريکی يونيورسٹی ہارورڈ ميں سائکائٹری کے پروفيسر رچرڈ موليکا کہتے ہيں، ’’اس وقت تارکين وطن ’ہنی مون‘ فيز ميں ہيں۔ امريکا آمد کے بعد پہلے سال تو وہ اپنی سابقہ صورتحال سے نکل آنے پر کافی خوش ہوتے ہيں اور انہيں لگتا ہے کہ امريکا ميں کچھ زبردست ہو رہا ہے۔ پھر دو ايک برس بعد ذہنی صحت بگڑنے لگتی ہے۔‘‘

پاکستانی پناہ کے ليے يورپ کيوں آ رہے ہيں؟