1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امريکہ، سياسی جماعتيں آزاد فلسطينی رياست کی قرارد کی مخالفت پر متفق

19 ستمبر 2011

امريکی صدر باراک اوباما نے پچھلے سال ستمبر ميں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ميں کہا تھا کہ کہ ايک سال کے اندر فلسطينيوں اور اسرائيل کے درميان ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام کا سمجھوتہ ممکن ہے۔

https://p.dw.com/p/12c0S
فلسطينی صدر محمود عباس رملہ ميں تقرير کرتے ہوئے
فلسطينی صدر محمود عباس رملہ ميں تقرير کرتے ہوئےتصویر: dapd

 ليکن ايک سال پورا ہو چکا ہے اور کسی سمجھوتے کے آثار دور دور تک نظر نہيں آتے۔ تاہم  اب امريکی صدر اپنے گزشتہ برس کے اعلان کے بالکل برخلاف کريں گے: يعنی اگر فلسطينيوں نے اقوام متحدہ ميں اپنی رياست کو تسليم کيے جانے کی درخواست پيش کی تو امريکہ سلامتی کونسل ميں اسے ويٹو کر دے گا۔

امريکی صدر اوباما نے مئی ميں ايک پريس کانفرنس ميں فلسطينيوں کی طرف سے اپنی آزاد رياست کو اقوام متحدہ سے تسليم کرانے کے بارے ميں کہا تھا: ’’ مجھے پورا يقين ہے کہ اگر فلسطينی اسرائيل سے بات چيت کرنے کے بجائے اقوام متحدہ سے رجوع کرنے کی راہ اپناتے ہيں، تو يہ ايک غلطی ہے۔‘‘چند دن پہلے امریکی  وزير خارجہ ہليری کلنٹن نے بھی يہی کہا کہ ايک مستقل حل کا راستہ  فريقین کے درميان براہ راست بات چيت ہی ہے۔

نيويارک ميں ايک پريس کانفرنس کے بعد ايک فلسطينی رياست کی نمائندہ ايک کرسی
نيويارک ميں ايک پريس کانفرنس کے بعد ايک فلسطينی رياست کی نمائندہ ايک کرسیتصویر: picture alliance/dpa

ليکن حکومت ہی نہيں، بلکہ امريکی کانگريس اور سينيٹ کے ساتھ ساتھ ريپبلکن اور ڈيموکريٹ دونوں پارٹيوں ميں اسرائيل کی زبردست حمايت پائی جاتی ہے اور فلسطينيوں کی طرف سے اقوام متحدہ ميں ايک آزاد رياست کی قرارداد کے سب ہی مخالف ہيں۔ کانگريس ميں امور خارجہ کی کميٹی کے سابق چیئر مين ڈيموکريٹ ہاورڈ برمين نےکہا کہ يہ اقدام امريکہ کی طرف سے بار بار کی جانے والی درخواست اور فلسطينيوں کے ماضی کے وعدوں کی خلاف ورزی ہو گا اور اس سے فلسطينی آزاد رياست کا قيام يقينی طور پر بہت دور ہو جائے گا۔

فلسطينيوں کو اقوام متحدہ ميں ايک الگ آزاد رياست کے قيام کی درخواست پيش کرنے پر امريکی مالی امداد ميں کمی کا سامنا ہوگا۔ خارجہ امور کی کميٹی کی موجودہ چیئرمين ريپبلکن روس ليتينين پہلے ہی يہ واضح طور پر کہہ چکی ہيں۔

مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطينی اور اسرائيلی فوجی
مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطينی اور اسرائيلی فوجیتصویر: dapd

واشنگٹن ميں مڈل ايسٹ انسٹيٹيوٹ کے بينرمين کا کہنا ہے کہ ريپبلکن اور ڈيمو کريٹک پارٹی استثنائی طور پر اقوام متحدہ ميں آزاد فلسطينی رياست کی قراداد کی مخالفت پر متفق ہيں اور اس ليے صدر اوباما کے پاس اُسے سلامتی کونسل ميں ويٹو کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نظر نہيں آتا، چاہے دنيا کے اکثر ممالک فلسطين کی اس آزاد رياست کی قرارداد کے حق ہی ميں کيوں نہ ہوں۔ اوباما، جو اگلے سال دوبارہ صدر منتخب ہونا چاہتے ہيں اتنے واضح طور پر فلسطينيوں کی حمايت اور اسرائيل کی مخالفت کے متحمل نہيں ہو سکتے۔

صدر اوباما نے اصرار کيا تھا کہ اسرائيل يہودی بستيوں کی تعمير روک دے، ليکن پھر انہيں اس مطالبے سے پيچھے ہٹنا پڑا۔ ان کے اور اسرائيلی وزير اعظم بینجمن نيتن ياہو کے تعلقات بھی اتنے اچھے نہيں سمجھے جاتے۔

رپورٹ: کرسٹينا برگمن، واشنگٹن / شہاب احمد صديقی

ادارت: عدنان اسحاق

 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں