1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

امریکا نے قدیمی عراقی ثقافت کا نایاب نمونہ واپس کر دیا

25 ستمبر 2021

عراقی سرزمین پر بہتے دریاؤں دجلہ و فرات کے درمیانی علاقے کو تہذیبوں کا ’پالنا‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اسی علاقے میں سمیری قوم کی ثقافت نے عروج پایا تھا۔ یہ تین ہزار قبل از مسیح کی بات ہے۔

https://p.dw.com/p/40qCu
USA Immigration and Customs Enforcement | konfisziertes Stück des Gilgamesch-Epos
تصویر: Immigration and Customs Enforcement-ICE/AP Photo/picture alliance

سمیری تہذیب کے عظیم بادشاہ گِلگامش کی جو سلیٹ عراق کو امریکا نے واپس کی ہے، اس کو قدیم ترین اور محفوظ ترین ادب کا ایک مختصر نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس سلیٹ یا ٹیبلٹ پر گِلگامش بادشاہ کی ایک رزمیہ نظم کندہ ہے۔ اسی بادشاہ کی حکومت قدیمی شہر اوروک میں قائم تھی اور اس تہذیب کے کھنڈرات موجودہ عراقی شہر سماوہ کے قُرب میں ہیں۔

عراقی نیشنل میوزیم: میسوپوٹیمیا کی تاریخ کا سب سے بڑا خزانہ

رزمیہ نظم کی سلیٹ کی واپسی

امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں عراق کے وزیر ثقافت حسن ناظم نے یہ قدیمی نایاب سلیٹ وصول کی۔ اس موقع پر حسن ناظم نے کہا کہ گِلگامش کی رزمیہ والی سلیٹ کی واپسی سے ان کی ملکی معاشرت کا عزت و وقار اور اعتماد بڑھے گا۔

BG Biblische Stätten im Irak | Anlass Papstbesuch | Archäologische Stätte der Stadt Ur
سمیری تہذیب کے عظیم بادشاہ گِلگامش کی حکومت قدیمی شہر اوروک میں قائم تھی اور اس تہذیب کے کھنڈرات موجودہ عراقی شہر سماوہ کے قُرب میں ہیںتصویر: Mohammed Aty/REUTERS

اپنے حجم کے حساب سے یہ ٹیبلیٹ چھوٹی سے ہے لیکن اس کی تاریخی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس سلیٹ پر سمیری قوم کے عظیم بادشاہ کی جنگی مہم کی طویل نظم کا ایک حصہ درج ہے۔ اس منظوم نمونے کو انسانی تاریخ کے معلومہ قدیم ترین لٹریچر کا نشان قرار دیا جاتا ہے۔

گِلگامش کی رزمیہ کے اثرات

اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آؤدرے آژولے کا کہنا ہے کہ سمیری بادشاہ کی مہماتی نظم نے توحیدی ادیان کو بہت متاثر کیا اور اس کے اثرات کے نشانات ہومر کی یونانی رزمیہ نگاری کے شاہکاروں الیاڈ اور اوڈیسی میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔

لٹیروں نے’نمرود‘ کو بھی نہیں چھوڑا

یونیسکو کی سربراہ نے گِلگامش کی ٹیبلیٹ کو ساری دنیا کا مشترکہ ورثہ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ نایاب اور شاہکار پتھر کی سلیٹ واپس اپنے درست مقام پر پہنچائی جا رہی ہے اور یہ بین الاقوامی برادری کی ایسے افراد پر فتح ہے، جو ایسے نایاب ورثے کو خراب یا برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکا کے نائب اٹارنی جنرل کینیتھ پولائٹ کا کہنا ہے کہ اس سلیٹ کی واپسی بھی ایک رزمیہ نظم کا حصہ محسوس ہوتی ہے۔

BG Biblische Stätten im Irak | Anlass Papstbesuch | Archäologische Stätte Babylon | Ischtar-Tor
دجلہ و فرات کے دریاؤں کے درمیان بڑی تہذیبیں سمیری اور بابلی اقوام کی تھیں۔ تصویر میں بابلی تہذیب کا اِشتر گیٹ دکھائی دے رہا ہےتصویر: Hussein Faleh/AFP/Getty Images

سلیٹ کی چوری

ایسے اندازے لگائے گئے ہیں کہ عراقی میوزیم میں سے یہ مٹی کی بنی ہوئی سلیٹ قریب سن 1991 میں چرائی گئی تھی۔ یہ دور خلیج کی پہلی جنگ کا ہے۔ پھر یہ دس برسوں بعد برطانیہ میں ظاہر ہوئی۔ اس ٹیبلیٹ کو سن 2003 میں ایک امریکی آرٹ ڈیلر نے لندن میں مقیم ایک اردنی خاندان سے خرید کر امریکا پہنچایا۔ اس کی سن 2007 میں دوبارہ فروخت پچاس ہزار ڈالر میں جعلی شناختی مقام کے ساتھ کی گئی۔

ثقافتی ورثہ کس طرح تباہی کا شکار ہے

یہ ٹیبلیٹ سن 2014 میں دوبارہ چوری ہو گئی اور پھر نادر نمونوں کا کاروبار کرنے والے خاندان ہابی لابی کو 1.67 ملین ڈالر میں فروخت کر دی گئی۔ قدامت پسند مسیحی خاندان ہابی لابی اس ٹیبلیٹ کو مسیحیت سے منسوب واشنگٹن میں واقع اپنے ذاتی میوزیم میں رکھنا چاہتا تھا۔ اس میوزیم کا نام 'بائیبل‘ ہے۔ اس کی شناخت کے مقام پر سوال اٹھے تو اس نایاب نمونے کو امریکی حکومت نے سن 2019 میں ضبط کر لیا۔

Irak Seleukia-Ktesiphon, archäologische Stätte, ehemalige Doppelstadt
دریائے دجلہ کے کنارے پر تیسفون کے قدیمی شہر کے کھنڈرات کا ایک منظرتصویر: picture-alliance/robertharding/M. Runkel

نایاب تاریخی نمونے تلاش کرنے میں مدد کی اپیل

عراق کی آثار قدیمہ کے نمونوں کی نگران وزارت اس کوشش میں ہے کہ بقیہ نایاب و قدیمی نمونے تلاش کر کے واپس وطن لائے جائیں۔ اس مناسبت سے اس نے دنیا بھر کے عجائب گھروں، یونیورسٹیوں، اداروں اور نایاب اشیاء کے جمع کرنے والوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے ملک سے لوٹے گئے ایسے قدیمی نوادرات کی تلاش میں مدد کریں۔

شامی و عراقی آثارِ قدیمہ کی تباہی اور لوٹ مار

اس ادارے کے مطابق سترہ ہزار کے قریب نایاب قدیمی نمونے امریکا نے رواں برس جولائی میں عراق کو واپس کیے تھے۔ ان اشیا کا تعلق چار ہزار سال قبل کے دور سے تھا۔ عراق میں ایسی نادر قدیمی اشیا کو لوٹنے کا سلسلہ اس ملک میں سن 2003 میں امریکی فوج کشی کے بعد شروع ہوا تھا۔

ع ح/ ا ا (اے ایف پی)