1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا کی طویل جنگ، افغانستان میں کون سے مواقع ضائع ہوئے

عاطف بلوچ، روئٹرز
7 اکتوبر 2016

پندرہ برس قبل، ٹھیک آج ہی کے روز امریکا نے افغانستان میں اپنے عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا تھا، یہ جنگ امریکا کی تاریخ کی طویل ترین جنگ ثابت ہوئی۔

https://p.dw.com/p/2R0Wl
Symbolbild USA Irak Truppen
تصویر: picture-alliance/dpa/Armin Weigel

افغانستان میں امریکا عسکری مداخلت شروع ہوئی، تو اس وقت اسلام آباد میں تعینات امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے اسٹیشن چیف رابرٹ گرینیئر نے اس جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں اس سابقہ اعلیٰ امریکی عہدیدار نے اس جنگ اور افغانستان میں قیام امن سے متعلق اہم امور پر روشنی ڈالی۔

ڈی ڈبلیو: افغان جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین عسکری کارروائی بن چکی ہے۔ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد خاصی کم ہو چکی ہے، جو کچھ برس قبل تک قریب ایک لاکھ تھی اور اب فقط چند ہزار امریکی فوجی وہاں موجود ہیں، تاہم معلوم یہی ہوتا ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام انتہائی مشکل ہے۔ آپ طالبان کی کارروائیوں اور ان کی مزاحمت کو کیسے دیکھتے ہیں؟

رابرٹ گرینیئر: طالبان کی جانب سے بڑی کارروائیاں سن 2005ء سے جاری ہیں۔ اسی دور میں طالبان ایک مرتبہ پھر متحد ہونا شروع ہوئے تھے اور انہوں نے کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ ان کی کارروائیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ سن 2001ء کے اختتام پر اس جنگ سے قبل جب میں طالبان کے ساتھ امریکا مطالبات پورے کرنے کے حوالے سے مذاکرات کر رہا تھا، تو اس وقت بھی مجھے متعدد امور پر پریشانی تھی، کیوں کہ مجھے خدشات تھے کہ ہم ایک ’کبھی نہ ختم ہونے والے‘ تنازعے میں پھنس سکتے ہیں، اور یہی ہوا۔ ہم انہیں مکمل شکست دینے میں ناکام رہے اور وہ اس قابل نہیں تھے کہ جیت سکتے۔

ڈی ڈبلیو: جیسا کہ آپ نے کہا کہ آپ افغانستان پر حملے سے قبل طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے۔ کیا اس وقت کہیں کوئی ایسا موقع پیدا ہوا تھا کہ طالبان اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر اہم رہنماؤں کو امریکا کے حوالے کرنے پر آمادہ دکھائی دیے ہوں؟

US-Soldaten in Afghanistan
اب بھی قریب ساڑھے آٹھ ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیںتصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

رابرٹ گرینیئر: نہیں میرے خیال میں ایسا نہیں ہوا۔ میرے مذاکرات ملا عمر کے بعد دوسرے اہم ترین طالبان رہنما ملا عثمانی سے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ میری دو ملاقاتیں ہوئیں، جن میں میں نے کوشش کہ انہیں قائل کر سکوں کہ وہ ملا عمر کو ہٹا کر خود امیر بن جائیں۔ اس طرح اسامہ بن لادن اور اس کے دیگر ساتھیوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں آسانی ہوتی اور طالبان تحریک بھی بچ جاتی۔

ڈی ڈبلیو: آپ کو کیا لگتا ہے کہ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایسا کیا غلط ہوا، جس کی وجہ سے افغان عوام امریکی اور نیٹو فورسز کو آزادی دہندہ کی بجائے قابض فورسز سمجھنے لگے؟

رابرٹ گرینیئر: یہ ایک طویل اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ یقیناﹰ ایک مسئلہ تو یہ تھا کہ سی آئی اے اور پینٹاگون کے زیادہ تر عہدیداروں کو افغانستان اور اس کی ڈائنیمکس کا علم ہی نہیں تھا اور وہ طالبان اور القاعدہ کے درمیان ربط کی بابت بھی زیادہ نہیں جانتے تھے۔ وہ چیزوں کو سیاہ و سفید کے خانے میں توڑ کر دیکھ رہے تھے۔ مثلاﹰ قندھار پر قبضے کے بعد طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکتا تھا اور ان سے یہ منوایا جا سکتا تھا کہ وہ جرائم میں ملوث طالبان رہنماؤں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں اور امریکا باقی طالبان کو نشانہ بنانے سے پرہیز کرے گا، مگر ایسا کیا نہیں گیا۔