1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Al-Jazeera US

16 فروری 2011

مصر میں جاری عوامی مظاہروں کی بے باک رپورٹنگ کے باعث عرب نیوز نیٹ ورک الجزیرہ،امریکہ میں اپنے سامعین کی تعداد میں اضافہ کرنے میں کامیاب تو رہا ہے تاہم ماہرین کے مطابق یہ مقبولیت زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکے گی۔

https://p.dw.com/p/10Ht8
تصویر: AP Graphics

قطر میں قائم نیوز نیٹ ورک الجزیرہ کے مطابق مصر میں عوامی مظاہروں کی ابتداء کے بعد سے اب تک اس کے انٹرنیٹ ویب سائیٹ دیکھنے والے صارفین کی تعداد میں 2500 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے نصف تعداد امریکہ میں بسنے والوں کی ہے۔ کمپنی کے مطابق صرف ماہ جنوری کے آخری چار دنوں میں اس چینل کی نشریات کی لایئو اسٹریمنگ نے چار ملین افراد کی توجہ حاصل کی جن میں سے 1.6 ملین افراد کا تعلق امریکہ سے تھا۔اس کے علاوہ اب تک ٹوئیٹر پر انگریزی میں خدمات فراہم کرنے والے اس کے صفحہ پر صرف 60 ہزار فالوورز ہوا کرتے تھے تاہم مصر میں رونما ہونے والے اہم واقعات کے بعد اس کے فالوورز کی تعداد 184،000 تک پہنچ گئی۔ جبکہ سماجی ویب سائیٹ فیس بک پر الجزیرہ کے حامیوں کی تعداد دوگنی یعنی 354,000 ہو گئی ہے۔

Der arabische Nachrichtensender Al Jazeera zeigt Videoaufnahmen von Ossama Bin Laden Quiz 50 Jahre Deutsche Welle Frage 9
الجزیرہ کو اصل شہرت اسامہ بن لادن کے ویڈیو پیغامات نشر کرنے سے ملیتصویر: AP

یہ تعداد ایک ایسے نیوز چینل کے لیے بری نہیں جس پر سابق امریکی صدر جارج بش مبینہ طور پر بمباری کروانا چاہتے تھے۔ اب اس چینل کے مشتاق ناظرین میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور صدر باراک اوباما جسیے نام بھی شامل ہیں۔

ان سب کے باوجود اس نیٹ ورک کے لیے ہمیشہ سب کچھ اچھا نہیں رہا ہے۔ اس نیٹ ورک میں قطر کے ارب پتی شیخ کی حصہ داری کے باعث اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ الجزیرہ پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہےکہ وہ ملک کی خارجہ پالیسی پر نہ صرف کام کرتا ہے بلکہ اس کی جانب سے ایسی کوریج کی جاتی ہے جو ملک کے دورے پر آنے والے رہنماؤں کے لیے موزوں ہو۔ تنقید نگاروں نے اس نقطے کی جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ الجزیرہ نے مصر کی سڑکوں پر ہونے والے ابتدائی مظاہروں کی نمایاں طور پرسست رپورٹنگ کی اور یہ الزام بھی عائد کیا کہ اس کی وجہ، قطر کے امیر اور خلیجی ریاستوں کے دورے پر آئے ہوئے سابق مصری صدر حُسنی مبارک کے درمیان مبینہ طور پر ایک ڈیل تھی۔

Al Dschasira auf Englisch
الجزیرہ کی انگریزی نشریات نے امریکہ میں بھی خاصی مقبولیت حاصل کی ہےتصویر: AP

اس کے علاوہ الجزیرہ پر حماس اور حزب اللہ کی حمایت کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ وہ لبنان اور غزہ میں ہونے والے واقعات کی جانبدارانہ رپورٹنگ کرتا ہے۔

اس سے قبل القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے ویڈیو پیغامات عام کرنے کی پاداش میں الجزیرہ کو مغربی دنیا میں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں امور مشرق وسطٰی کے ماہر ناتھن براون نے ڈویچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، " 9/11 کے حملوں کے بعد سے پیدا ہونے والے ماحول میں دہشت گردی، مشرق وسطی میں تشدد اور سیاسی اسلام کے بارے میں بہت فکر پائی جاتی تھی۔ گوکہ الجزیرہ کے پروگرام صرف عربی میں نشر کیے جاتے تھے تاہم کچھ ایسا تاثر ضرور مل رہا تھا کہ اس کی رپورٹنگ غیر جانب دار نہیں ہے۔ "

تاہم براؤن کے مطابق الجزیرہ کی جانب سے اچھی کوریج کی جاتی ہے۔ ب وہ الجزیرہ کی جانب سے لمحہ بہ لمحہ کی جانے والی کوریج کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ صرف مصر کے التحریر چوک ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں کیا ہو رہا ہے تو الجزیرہ اس سے آپ کو باخبر رکھتا ہے۔ عمر سلیمان تقریر کر رہے ہوں یا حُسنی مبارک، الجزیرہ اس کو فوری طور پر اچھے ترجمے کے ساتھ پیش کرے گا۔براؤن کے مطابق اصل میں بہت اچھا ہے اور یہ ہی وجہ ہے جس کے لیے لوگوں کو یہ چینل سننا یا دیکھنا چاہئے۔

گو کہ الجزیرہ نے امریکی سامعین میں ڈرامائی طور پر اپنی جگہ بنا لی ہے تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ مشرق وسطی میں قیام امن کے بعد یہ مقبولیت زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکے گی۔

رپورٹ: Michael Knigge ،عنبرین فاطمہ

ادارت: کشور مصطفی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں