1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ: پاکستان کے لئے امداد کا بل منظور

عروج رضا/امجد علی22 مئی 2009

امریکی سینٹ نے 91,3 ارب ڈالر کے اضافی بجٹ کی منظوری دے دی ہے۔ اِس بجٹ میں پاکستان میں باغیوں کو کچلنے کے لئے دئے جانے والے وہ چار سو ملین ڈالرز بھی شامل ہیں، جنہیں متعدد سینیٹرز نے ہدفِ تنقید بنایا۔

https://p.dw.com/p/HvUL
ایڈ مرل مائیک مولن کو پاکستان کے لئے امداد کے حوالے سے کڑے سوالات کا سامناتصویر: picture-alliance/ dpa

اضافی بجٹ کی یہ رقم عراق اور افغانستان میں فوجی کارروائیوں پر خرچ کی جائے گی۔ 86 سینیٹرز نے اِس بجٹ کے حق میں جبکہ تین نے اِس کے خلاف ووٹ دئے۔ پاکستان کے لئے مختص کی گئی 400 ملین ڈالر کی رقم پاکستانی فوجیوں کو ساز و سامان اور تربیت کی فراہمی پر خرچ کی جائے گی۔

جمعرات کوامریکی سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی میں اِس بجٹ پر بحث کے دوران بہت سےایوان نمائندگان نے اصرار کیا کہ پاکستان کو فراہم کی جانے والی 400 ملین ڈالرز کی امداد کے ساتھ ایسی شرائط منسلک کی جائیں، جن کے تحت اس امداد کا احتساب بھی کیا جا سکے۔ امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈ مرل مائیک مولن نے پاکستان کی افواج کو یہ امداد دینے کےلئے امریکی انتظامیہ کو درخواست کی تھی تاکہ طالبان کے خلاف اس لڑائی میں پاکستانی افواج کو اس فنڈ کے ذریعے آسانی فراہم کی جا سکے۔

ایوان میں بحث کرتے ہوئےکمیٹی کے چئیرمین جان کیری نے مائیک مولن سے کہا کہ پاکستان افواج کو گذشتہ ادوار میں دی جانے والی امداد کے متعلق کانگریس میں ایک بے چینی پائی جاتی ہے اور یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اس امداد سے کیا فوائد حاصل ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ امریکی انتظامیہ کے تحت پاکستان کو دی جانے والی امداد کے احتساب کی ضرورت ہے۔ بہت سے لوگ یہ جانتے ہی نہیں کہ گذشتہ چھ،سات سالوں میں کروڑوں ڈالرز کی انتہائی اہم امداد پاکستان میں کن منصوبوں پر خرچ ہوئی ہے۔

Pakistan Treffen john Kerry und Yousaf Raza
امریکی سینیٹر جان کیری اِس سال اپریل میں پاکستان کے ایک دورے کے موقع پر پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ہمراہتصویر: AP

کمیٹی کے چیئرمین جان کیری اور دیگر سینیٹرز کے مطابق اُنہوں نے ایسی قانون سازی کی تجویز بھی دی تھی، جس سے اس امدادی رقم کی نگرانی اور احتساب ممکن بنایا جا سکے۔ اس موقع پر ایک اور سینیٹر جم وَیب نے کہا کہ انہوں نے بھی ایک ترمیم متعارف کروائی تھی، جس کے تحت پاکستانی جوہری ہتھیاروں کی ترقی و تشکیل کے لئے امریکی فنڈز کو استعمال ہونے سے روکا جا سکے گا۔

امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ بھی پاکستان میں جاری بغاوت کےخاتمے میں تیزی لانے کے لئے سال 2009ء کےاضافی بجٹ کی منظوری کے حق میں تھی۔ امریکی انتظامیہ اسی طرح کے منصوبے کے لئے آئندہ مالی سال 2010ء میں بھی سات سو ملین کی رقم مختص کرنا چاہتی ہے۔ اُس کے خیال میں پاکستان کو دئے جانے والے ’’پاکستان کاؤنٹر انسرجینسی کیپیبلٹی فنڈ‘‘سے پاکستان میں باغیوں کی سرگرمیوں کو ختم کرنےمیں مدد ملے گی۔

مائیک مولن نے کمیٹی کو بتایا کہ امریکی انتظامیہ پاکستانی حکومت کے ہاں اپنا اعتماد بحال کرنا چاہتی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اس وقت اس فوجی امدادی فنڈ کے ساتھ بہت زیادہ شرائط منسلک نہ کی جائیں۔ اُنہوں نے رویوں میں ممکنہ حد تک لچک دکھانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ شرائط عائد کرنے سے اس پروگرام کو شروع کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ مولن کا کہنا ہے کہ اس فنڈ پر کی جانے والی تنقید اور شرائط سے امریکہ پاکستان تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

اسلام آباد میں قائم امریکی سفارتحانہ اور پاکستان میں تعینات امریکی ملٹری آفیسرز نے اس امدادی پروگرام کو مزید بہتر بنانے کا جائزہ لیا ہے۔ مولن کے اس بیان پر سینیٹر رابرٹ مینینڈیس نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے دی جانے والی بارہ ارب ڈالر کی غیر مشروط رقم سے پاکستان کو تو کوئی فائدہ ہوا ہو یا نہیں البتہ امریکہ کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔