1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ ، پاک اور افغان مذاکرات کامیاب رہے

27 فروری 2009

سہ فریقی مذاکرات میں سلامتی کی صورتحال اوراس سے منسلک کئی اہم موضوعات زیر بحث آئے۔ ہلیری کلنٹن نے بتایا کہ اس حوالے سے اگلی بات چیت وقتی طور پر اپریل کے آخر یا مئی کے آغاز میں ہو گی۔

https://p.dw.com/p/H2Dk
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹنتصویر: picture-alliance/ dpa

امریکہ، پاکستان اورافغانستان اس بات پرمتفق ہو گئے ہیں کہ دہشت گردی، سرحدی علاقوں کی صورتحال کے بارے نئی امریکی حکمت عملی اورعسکریت پسندی کی روک تھام کے لئے آئندہ تینوں ممالک کے درمیان باقاعدگی سے مذاکرات ہونگے۔ اس کا فیصلہ واشنگٹن میں امریکہ، پاکستان اورافغانستان کے وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس میں ہوا۔ اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لئے نئی دفاعی حکمت عملی تیار کرنا ہو گی اور اس حوالے سے مذاکرات کا فیصلہ سود مند ثابت ہو گا۔ ساتھ ہی انہوں نے سہ فریقی مذاکرات کو اہمیت کا حامل اور بے مثال قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت میں سلامتی کی صورتحال اوراس سے منسلک کئی اہم موضوعات زیر بحث آئے۔ ہلیری کلنٹن نے بتایا کہ اس حوالے سے اگلی بات چیت وقتی طور پراپریل کے آخر یا مئی کے آغاز میں ہو گی۔

Der pakistanische Außenminister Shah Mehmood Qureshi
پاکستانی وزیر خارجہ شاھ محمود قریشیتصویر: picture-alliance/dpa

اس موقع پر پاکستانی وزیرخارجہ شاھ محمود قریشی نے سوات میں ہونے والے حالیہ معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کے بعد سوات میں طالبان کا نہیں بلکہ حکومت پاکستان کا کنٹرول ہے اور پاکستان کسی بھی صورت میں طالبان کے آگے نہیں جھکے گا۔ اس موقع پرافغان وزیرخارجہ رنگین دادفر سپانتا نے کہا کہ اس وقت عراق اورافغانستان سے زیادہ پاکستان کو دہشت گردی سے خطرے ہے ۔

Jou_deu_inter_spanta.jpg
افغان وزیرخارجہ رنگین دادفرتصویر: DW-TV


اس سے قبل امریکہ کی جانب سے یہ بات کہی گئی تھی کہ رواں سال خطے میں سلامتی کی صورتحال پر کنٹرول کافی مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما کے افغانستان میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے مزید فوجی بھیجنے کے اعلان کے بعد وزرائے خارجہ کی ان ملاقاتوں کو کافی اہمیت دی گئی۔ افغان وزیر دفاع محمد رحیم وردک نے امریکی صدرکے افغانستان کے لئے فوجی قوت میں اضافے کے فیصلے کو سراہتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ اس اضافے سے بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی پرقابو پانے میں مدد ملے گی۔ وردک بھی وزرائے خارجہ کی ملاقاتوں میں شریک تھے۔