1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی دانش ور مہاجرین کے لیے جیبیں اور در کھولے ہوئے

عاطف توقیر24 مئی 2016

امریکا میں متعدد کالجوں نے شامی مہاجرین کے لیے دروازے کھولنے اور ان کی مالی امداد کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ اس کا مقصد جنگ سے تباہ حال ملک شام کے ان مہاجرین کی لیے زندگی کی نئی راہیں کھولنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1ItXD
USA Kalifornien Syrische Flüchtlinge in San Diego
تصویر: picture alliance/San Diego Union-Tribune/J. Gastaldo

گزشتہ ایک برس میں کم از کم ایک درجن اسکولوں نے یہ وعدہ کیا کہ وہ ایسے شامی مہاجر جن کا داخلہ اسکولوں میں ہو جائے گا، ان کی فیس یا تو مکمل طور پر معاف ہو گی یا جزوی طور پر۔

اس فہرست میں قریب 60 ایسے کالج بھی شامل ہو چکے ہیں، جنہوں نے سن 2011 سے اب تک شامی طلبہ کے لیے خصوصی اسکالر شپس مہیا کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

ان کالجوں نے اب تک ڈیڑھ سو سے زائد شامی طلبہ کو اسکالرشپس دی ہیں۔

شامی مہاجرین کے لیے اس علمی کوشش کا آغاز امریکی انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ایجوکیشن نامی غیر سرکاری تنظیم نے کیا تھا۔

یہ تنظیم قدرتی آفات اور تشدد سے متاثر خطوں اور علاقوں کے طلبہ کو مالی اعانت فراہم کرتی ہے۔

اس انسٹیٹیوٹ کے مطابق شامی خانہ جنگی سے متاثر گیارہ ملین بے گھر افراد میں سے قریب ایک لاکھ ایسے ہیں، جو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پہنچ سکتے ہیں، تاہم ان کے پاس اعلیٰ تعلیم کے حصول کا کوئی راستہ نہیں۔

اس امدادی تنظیم کے سربراہ ایلن گُڈمین کے مطابق، ’’ہمیں مدد کی طالب اتنی بڑی تعداد پہلے کبھی نہیں ملی۔

شامی خانہ جنگی بے انتہا پیچیدہ ہے اور اس کے اثرات کسی بھی بحران کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔‘‘

شامی تنازعے کے آغاز پر امریکی میں متعدد اسکولوں نے شامی طلبہ کی تعلیم کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے اقدامات شروع کیے تھے اور اس لہر میں بعد میں متعدد دیگر تعلیمی ادارے بھی شامل ہوتے گئے۔

Griechenland wildes Flüchtlingslager Idomeni
یورپ کو مہاجرین کے بدترین بحران کا سامنا ہےتصویر: picture alliance/AP Photo/D. Bandic

یونیورسٹی آف ساؤتھ کیلی فورنیا اگلے برس چھ شامی مہاجرین کو ٹیوشن فیس میں مکمل چھوٹ فراہم کر رہی ہے جب کہ پینسیلوینا کے الزبتھ ٹاؤن کالج نے بھی پانچ شامی طلبہ کے لیے 25 ہزار ڈالر سالانہ کے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی تعلیمی اداروں میں شامی طلبہ کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، تاہم اب بھی متعدد دیگر اقوام کے مقابلے میں یہ تعداد خاصی کم ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید