1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی عوام اوباما سے قدرے ناراض ہوتے ہوئے

عابد حسین5 نومبر 2015

ایسوسی ایٹڈ پریس کے رائے عامہ کے ایک تازہ جائزے کے مطابق عام امریکی ’اسلامک اسٹیٹ‘ جیسے معاملات پر امریکی پالیسی سے خوش نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اوباما جہادی تنظیم اور افغانستان کی صورت حال سے بہتر انداز میں نہیں نمٹ رہے۔

https://p.dw.com/p/1H0du
تصویر: Reuters

جرمن فرم جی ایف کے (Society for Consumer Research) اور نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مشترکہ جائزے کے مطابق دس میں سے چھ امریکی اپنے صدر سے اِس لیے ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خطرے کو اب تک مناسب انداز میں کرش یا نمٹنے سے قاصر رہے ہیں۔ اِسی طرح اُنہوں نے افغانستان میں امریکی کامیابی کے حوالے سے بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ مجموعی طور پر اِن کا خیال ہے کہ جس طرح افغان عوام میں یاسیت پھیل رہی ہے اسی طرح امریکی عوام بھی شدت پسندی کے خلاف امریکی کامیابی سے مایوس ہے۔

رائے عامہ کے جائزے کے مطابق اوباما جب اگلے برس اپنے منصبِ صدارت سے فارغ ہوں گے تو افغانستان میں متعین امریکی فوجی دستوں کو بغیر کسی مستقبل کی مناسب پلاننگ کے چھوڑ کر جائیں گے۔ اِس جائزے کے مطابق شام اور عراق میں دہشت گرد گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے امریکیوں کا کہنا ہے کہ امریکی پالیسی بے اثر دکھائی دے رہی ہے اور اوباما کی پالیسی کے باعث اِن شورش زدہ ملکوں میں امریکی فوجی مداخلت کا دائرہ آہستہ آہستہ پھیل رہا ہے۔

US Soldaten in Afghanistan
اوباما کی افغان پالیسی پر بھی عوامی سطح پر لوگوں میں متضاد رائے پائی جاتی ہےتصویر: Getty Images/AFP/N. Shirzada

شام اور عراق میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی پیشقدمی کو روکنے اور اِس کے جہادیوں کو شکست دینے کے لیے قائم امریکی اتحاد کے لیے عوامی ہمدردی یا حمایت کا گراف بھی زوال پذیر ہے۔ امریکی اتحاد کا قیام گزشتہ برس سامنے آیا تھا۔ لوگوں کو امریکی صدر کی خارجہ پالیسی پر بھی تشویش ہے کیونکہ یہ عالمی سطح پر درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے میں واضح طور پر کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ تاہم چالیس فیصد لوگ اِس صورت حال سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔ اِن کا خیال ہے کہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اوباما کی کوششیں بظاہر دیکھی جا سکتی ہیں لیکن وہ کامیابی سے دور ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ سن 2017 کے اوائل میں جب اوباما کی مدتِ صدارت ختم ہو گی تو مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے کوئی بڑا کردار ادا کرنے سے امکاناً دور ہوں گے۔ اُن کے دور میں مشرق وسطیٰ میں جنگی صورت حال جیسے تین مسلح تنازعات جوں کے توں ہی رہ سکتے ہیں۔ اوباما کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان حالات میں امریکی صدر کی کوششوں نے صورت حال کو بہتری کی جانب لے کر جانے کے بجائے مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔

ایک ریٹائرڈ پولیس افسر ڈونلڈ ہیمنڈ کا کہنا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے جہادی تو اوباما کی پالیسی کو دیکھ کر قہقہے لگا رہے ہیں کیونکہ سب کچھ ویسے کا ویسا ہے اور اُن کی کامیابی کا سلسلہ جاری ہے۔ پورٹ لینڈ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی خاتون پیٹی واٹسن کا خیال ہے کہ دلدل جیسی صورت حال میں کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا اور اوباما تو بہرحال اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ حالات بہتر ہو سکیں۔ یہ سروے امریکی صدر کے شمالی شام میں خصوصی آپریشن میں شریک ہونے والے پچاس فوجیوں کی تعیناتی کے اعلان کے تناظر میں مکمل کیا گیا ہے۔