1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی فوجی مرکز فورٹ ہڈ میں فائرنگ: کم از کم بارہ ہلاک

رپورٹ:عابد حسین ، ادارت : امجد علی6 نومبر 2009

امریکہ کے مشہور فوجی بیس فورٹ ہڈ میں ایک شوٹنگ کے واقعے میں ایک درجن ہلاکتوں سے کھلبلی مچا دی ہے۔ ایک ہی شوٹر کی فائرنگ سے یہ تمام ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ یہ شوٹر زخمی اور زندہ ہے۔ شوٹر مسلمان ڈاکٹر ہے۔

https://p.dw.com/p/KPeV
فورٹ ہڈ: فائل فوٹو:تصویر: AP

امریکی ریاست ٹیکساس میں واقع امریکی فوجی اڈے فورٹ ہوڈ پر فائرنگ کے ایک واقعے نے پورے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ایک اُنتالیس سالہ میجر نے، جو ڈاکٹر تھا اور فوجی آپریشنز سے واپس آنے والے یا عنقریب کسی مشن پر جانے والے فوجیوں کیلئے نفسیات دان کے طور پر کام کرتا تھا، فائرنگ کر کے گیارہ افراد کو ہلاک اور اکتیس کو زخمی کر دیا۔ بعد ازاں اِس حملہ آور کو بھی، جس کا نام نِدال مالک حسن بتایا گیا ہے، گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اِس کی اب تردید کر دی گئی ہے۔

فورٹ ہُڈ بیس کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل بَوب کون نے بتایا کہ حملہ آور زخمی ہے اور وہ ہسپتال میں رکھا گیا ہے اور اُس کی حالت تسلی بخش ہے۔ ایک اور شخص فوجی تحویل میں ہے۔ جب کہ حراست میں لئے گئے مزید دو فوجی ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد رہا کر دیئے گئے ہیں۔ فورٹ ہڈ کے کمانڈر بوب کون کے مطابق شوٹر نے دونوں ہاتھوں میں ہینڈ گنز تھیں۔ بَوب کون کے مطابق اِس افسوس ناک واقعے کے محرکات اور حملہ آوروں کے مقاصد کے بارے میں فوری طور پر کچھ نہیں بتایا جا سکتا۔

Fort Hood / Texas / USA / Schießerei
فورٹ ہُڈ میں شوٹنگ کے بعد مرکزی گیٹ سے ایمبیولینس گزرتی ہوئی۔تصویر: AP

پہلے بتایا گیا تھا کہ اِس فوجی اڈے پر بیک وقت دو یا بلکہ تین مختلف جگہوں پر فائرنگ شروع ہو گئی ہے تاہم بعد میں یہ واضح ہوتا گیا کہ بڑا حملہ اِسی میجر نِدال مالک حسن نے کیا، جسے خود عنقریب ایک مشن پر عراق بھیجا جانے والا تھا۔ اِس حملہ آور کے ایک قریبی عزیز کا کہنا ہے کہ میجر نِدال مالک حسن کو اپنے ساتھی فوجیوں کی جانب سے ہمہ وقت ہراساں کئے جانے کی شکایت رہتی تھی۔ میجر حسن دماغی امراض کے ڈاکٹر ہیں اور والدین کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہے۔ وہ البتہ ورجینیا میں پلے بڑھے ہیں۔ اُن کی عمر انتالیس سال بتائی جاتی ہے۔

ہسپتال جا کر ایک زخمی بھی چل بسا، جس کے بعد اِس واقعے میں مرنے والوں کی تعداد بارہ ہو گئی ہے۔ پہلے اِس میں حملہ آور بھی شامل تھا لیکن وہ زندہ ہے۔ اِس واقعے سے فوری طور پر امریکی صدر باراک اوباما کو بھی مطلع کیا گیا، جنہوں نے کچھ ہی دیر بعد اِس واقعے پر گہرے دکھ کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ اُن کی دعائیں اِس ہولناک سانحے میں زخمی اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ساتھ اُن تمام فوجی سپاہیوں کے لئے بھی ہیں، جو فورٹ ہُڈ میں رہ رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ یہی کافی تھا کہ امریکی فوجی دُنیا بھر میں جا کر جانوں کی قربانی دے رہے ہیں، چہ جائیکہ اُنہیں امریکی سرزمین پر اِس طرح سے جان دینی پڑے۔

Fort Hood / USA / Schießerei / Texas
فورٹ ہڈ میں ایک فوجی اپنی بیوی کو تسلیاں دیتا ہواتصویر: AP

اِس شوٹنگ کے واقعے سے امریکہ کے اندر ایک ہنگامی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ ٹیکساس سے تعلق رکھنے والی امریکی سینیٹ کی رکن کے بیلی ہچسن نے اِس وقوعے پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اندرونی سلامتی کے امریکی ادارے ہوم لینڈ سیکیورٹی ایجنسی اِس واقعہ کی تحقیقات کرے گا۔ دوسری جانب امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے ماہرین بھی فورٹ ہوڈ روانہ کر دئے گئے ہیں۔ امریکہ یک مسلمان تنظیموں نے اِس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

فورٹ ہوڈ امریکہ کے اندر ایک بڑا فوجی مرکز تصور کیا جاتا ہے، جو ریاست ٹیکساس کے مرکزی شہر آسٹن سے پچانوے کلومیٹر کی دوری پر شمال میں واقع ہے۔ یہاں کے کئی یونٹ عراق اور افغانستان میں تعینات کئے جا چکے ہیں۔ اِس مرکز پر حاضر سروس فوجیوں کی تعداد چالیس ہزار ہے۔ اِن کے خاندان بھی اِسی مرکز پر رہتے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں فوجی اور کاروباری سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔

سن دو ہزار سات میں پانچ مسلمان انتہاپسندوں کو ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے حراست میں لیا تھا اور وہ فورٹ ڈِکس بیس، نیو جرسی پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اِن مجرموں کو تیس سال سے عمر قید کی سزائیں اِس سال اپریل میں سنائی گئی تھیں۔