1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امید ہے ترکی مہاجرین کی ڈیل کا احترام کرے گا، جرمن وزیرداخلہ

عاطف بلوچ، روئٹرز
18 مارچ 2017

جرمن وزیرداخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ انقرہ حکومت گزشتہ برس یورپی یونین کے ساتھ مہاجرین کے موضوع پر طے پانے والے معاہدے کا احترام کرے گی۔

https://p.dw.com/p/2ZTtc
Greichenland Flüchtlinge protestieren auf Chios
تصویر: imago/ZUMA Press

پچھلے برس مارچ میں طے پانے والے معاہدے میں ترکی کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ اپنے ہاں سے مہاجرین کو بحیرہء ایجیئن عبور کر کے یونان پہنچنے سے روکے جب کہ اس کے بدلے ترک باشندوں کو شینگن ممالک کے ویزا فری سفر کی اجازت دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، تاہم اس معاملے میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی ہے، جس پر ترکی برہم ہے۔

بدھ کے روز ترک وزیرخارجہ مولود چاؤش اولو نے دھمکی دی تھی کہ انقرہ حکومت اس معاہدے کو منسوخ کر سکتی ہے۔

جمعے کو اپنے ایک بیان میں تھوماس ڈے میزیئر نے کہا، ’’مجھے ترکی کی جانب سے سننے کو مل رہا ہے کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ ہم اس معاہدے پر عمل درآمد کی بھیک مانگیں۔‘‘

متعدد جرمن صوبوں کے وزرائے داخلہ سے ملاقات کے بعد اپنے بیان میں ڈے میزیئر نے کہا، ’’یہ ایک معاہدہ ہے، جس پر ہم عمل درآمد کر رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ترکی بھی ایسا ہی کرے گا۔‘‘

Griechenland Unbegleitete Jugendliche Flüchtlinge
ترکی میں لاکھوں مہاجرین موجود ہیںتصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic

یہ بات اہم ہے کہ سن 2015ء میں شام، عراق، افغانستان اور متعدد دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک ملین سے زائد مہاجرین نے بحیرہء ایجیئن عبور کر کے یورپی یونین میں داخل ہو کر سیاسی پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔ تاہم گزشتہ برس مارچ کے آخر میں اس معاہدے کے بعد یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔

جمعے کے روز جرمن حکومت کے ایک ترجمان نے بھی بتایا کہ فی الحال انقرہ حکومت کی جانب سے اس ڈیل کو معطل کرنے کے اشارے نہیں مل رہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ اب بھی ترکی سے یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد خاصی کم ہے۔

یورپی حکام کا کہنا ہے کہ فی الحال وہ اس ڈیل کے ختم ہونے سے متعلق پریشان نہیں ہیں، کیوں کہ اب تک یورپی یونین اس معاہدے کی مد میں ترکی میں مقیم شامی باشندوں کی مدد کے لیے سات سو ستتر ملین یورو خرچ کی چکی ہے۔

تھوماس ڈے میزیئر نے کہا کہ ترکی کی جانب سے روز بہ روز اشتعال انگیز بیانات سامنے آ رہے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ترکی متاثرہ ملک ہے۔