1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
لٹریچرایشیا

امیر خسرو، ایک شاعر صوفی کی کلاسیکل موسیقی سے محبت

10 جون 2021

تقسیم ہند کے بعد شاید یہ دوسرا موقع تھا کہ درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کے صحن میں ”آج رنگ ہے، ری ماں رنگ ہے ری، مورے خواجہ کے گھر رنگ ہے، ری رنگ ہے ری، میرے محبوب کے گھر رنگ ہے ری، قوالی کی صدا نہیں گونجی۔

https://p.dw.com/p/3ugfd
Iran Amir Chosrau, von Schülern umgeben. Persische Miniaturmalerei des späten 16. Jahrhunderts

جی میں بات کر رہی ہوں 'طوطی ہند‘ حضرت امیر خسرو کے717 ویں سالانہ عرس کی۔ اس مرتبہ تو پتا ہی نہیں چلا کہ یہ کب آیا اور کب اس کی تین روزہ تقریبات ختم ہوئیں۔ خود بستی نظام الدین (دہلی)  کے مکینوں کو بھی اس کا پتہ نہیں چلا۔ میں بھی یہاں رہتی ہوں اور اس بات کی عینی شاہد ہوں کہ جب بستی کے گلی کوچوں کی صفائی سھترائی ہوتی ہے اور پولیس پہرا دیتی ہے تو یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ آج عرس کی تقریب میں شرکت کے لیے ملک کی کوئی مقتدرہ شخصیت تشریف لا رہی ہے۔

تقسیم ہند کے بعد سے حضرت نظام الدین اولیا اور ان کے سب سے چہیتے مرید حضرت امیر خسرو کے عرس کی تقریبا ت میں بھارت کے صدر جمہوریہ سے لے کر وزیراعظم اور بڑی بڑی مقتدرہ شخصیات کی شر کت ایک معمول رہی ہے۔ اس کے علاوہ عرس کی تقریبات سرکاری نشریاتی ادارہ آل انڈیا ریڈیو سے بھی براہ راست نشر ہوتی رہی ہیں۔ لیکن جب سے کووڈ کی عالمی وباء پھیلی ہے اس کا سایہ ان تقریبات پر بھی پڑا ہے۔

 خیال رہے کہ عرس صوفی کی پیدائش پر نہیں بلکہ اس کی وفات پر منایا جاتا ہے۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی  شادی یا خوشی ہے۔  

دنیا میں یک حیثیتی بڑے لوگوں کی کمی نہیں رہی۔ قدیم یونان میں ہومر کو لیں تو وہ ایک شاعر تھا۔ افلاطون و ارسطو فلسفی و حکیم تھے، جن کی زندگی کے دوسروں شعبوں میں کوئی واضح اثرات نہیں ہیں۔ اس کے برعکس خسرو کی شخصیت ہمہ جہت ہے۔

امیر خسرو کون تھے؟

 خسرو کا اصل نام ابوالحسن اور یمین الدین محمود لقب تھا مگر انہیں شہرت تخلص سے ملی۔ امیر، ان کا موروثی خطاب تھا اور پیدائش 1253 کی ہے۔ خسرو خود ترک ہندوستانی کہلانا پسند کرتے  تھے جبکہ ان کے مرشد نظام الدین اولیا نے انہیں 'طوطی ہند‘ کا خطاب دیا تھا۔ ان کے والد امیر سیف الدین لاچین قوم کے ایک ترک سردار تھے۔ منگولوں کے حملوں کے وقت ہندوستان آئے اور شمالی ہند کے پٹیالی قصبے (آگرہ) میں جا بسے۔ ان کی والدہ ایک نو مسلم راجپوت گھرانے سے تھیں۔ وہ آٹھ سال کے تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ کچھ عرصہ بعد ان کا خاندان دہلی منتقل ہو گیا۔ وہ برصغیر میں مسلم عہد حکومت کے ابتدائی ادوار کے عینی شاہد بھی ہیں۔ انہوں نے دہلی سلطنت کے خاندان غلامان، خلجی اور تغلق کے آٹھ بادشاہوں کا نہ صرف زمانہ دیکھا بلکہ اس زمانے کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں بھرپور کردار بھی ادا کیا۔

 گرچہ خسرو کا آبائی پیشہ سپہ گری تھا مگر وہ صوفی کے علاوہ ایک بلند پایہ ادیب، شاعر، نثر نگار اور موسیقار کے علاوہ متعدد زبانوں کے ماہر تھے۔ انہوں نے کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی مگر وہ بچپن ہی سے بڑے ذہین تھے۔ ان کی تصانیف کی تعداد 92 ہے، جو فارسی اور اردو زبان کی پہلی شکل ہندوی (فارسی ترکی، کھڑی بولی، برج بھاشا، اودھی کا مرکب ہے) میں لکھی گئی ہیں۔ جن میں تحفۃ الصغر و سطالحیات، غرۃالکمال، بقیہ نقیہ، قصہ چہار درویش، نہایۃ الکمال، ہشت بہشت، قران السعدین، مطلع الانوار، مفتاح الفتوح، مثنوی ذوالرانی-خضرخان، نہ سپہر، تغلق نامہ، خمسہ نظامی، اعجاز خسروی، خزائن الفتوح، افضل الفوائد، لیلیٰ مجنوں، خالق باری، جواہر خسروی، آئینہ سکندری، ملا الانور اور شیریں خسرو وغیرہ کافی مشہور ہیں۔ نیز غزل میں پانچ  یادگار دیوان شامل ہیں۔

کلاسیکل موسیقی اور اُردو

خسرو کو اردو زبان کا موجد بھی کہا جاتا ہے، جسے انہوں نے  ہندوی  نام دیا تھا، جو بعد میں ہندی  پھر ریختہ اور اردو معلی کے بعد اردو کہلائی۔ اسی طرح دنیا میں اردو کا پہلا شعر بھی خسرو سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ان سے اور بھی کئی ایجادات منسوب ہیں، جن میں قوالی، موسیقی کے راگ اور آلات  وغیرہ  شامل ہیں۔ وہ  موسیقی کے دالداہ تھے۔ ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کا انہیں اہم ستون قرار دیا جاتا ہے۔ کلاسیکل موسیقی کے اہم ساز، طبلہ اور ستار پر تیسرا تار چڑھانا انہی کی ایجاد ہے اور فن موسیقی کے اجزا جیسے خیال اور ترانہ بھی۔

Zeenat Akhte
زینت اختر، بلاگر (نئی دہلی)تصویر: privat

 انہوں نے بعض راگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگائے۔ راگنی (ایمن کلیان) جو شام کے وقت گائی جاتی ہے، انہی کی اختراع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تان سین اور بیجو باورا نے فن موسیقی میں، جو دوامی شہرت پائی وہ خسرو کے فن کی بدولت ہے۔ اسی طرح کے ماضی کے بے شمار فنکاروں جیسے  امراؤ جان اد ا، ملکہ جان، گوہر جان، رقیہ، تبسم اور شہناز وغیرہ کو کلام خسرو کی بدولت شہرت ملی۔

علمی و ادبی لحاظ سے خسرو کی عظمت بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے خمسہ نظامی کی طرز پر خمسہ لکھا اور تصوف واخلاقیات کے موضوع پر اپنی پہلی کوشش ”مطلع الانوار" پیش کی۔ مثنوی ”شیریں خسرو" اور ”لیلیٰ مجنوں" لکھی۔ اسی دوران والدہ اور چھوٹے بھائی کا انتقال ہو گیا۔ مثنوی میں درد وکرب کی کیفیت لانے کی ضرورت نہیں پڑی خود بخود آ گئی۔

سلطان علاوالدین خلجی کے (دورِ علائی) کو بارہ سال تک دیکھنے اور پرکھنے کے بعد خسرو نے ”خزائن الفتوح" تصنیف کی، جو ان کا پہلا نثری کارنامہ تھا۔ انہوں نے اس کتاب میں اپنے عہد کی تاریخ پیش کی ہے، جو اب سند کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ ”تاریخِ علائی" کے نام سے بھی مشہور ہوئی۔ اسی کے بعد انہوں نے اپنے مرشد نظام الدین اولیاء کے ملفوظات کو جمع کر کے ”افضل الفواد" کے نام سے مرتب کیا اور ضخیم نثری تصنیف ”رسائل الاعجاز" مکمل کی۔ انہوں نے علاء الدین خلجی کے بیٹے خضر خان کی داستان عشق بھی نظم کی، جو ”دیوال رانی خضر خاں" کے نام سے مشہور ہے۔ خضر خان سے ان کے اچھے مراسم تھے، جو نظام الدین اولیاء کا عقیدت مند تھا اور خانقاہ میں بھی آتا جاتا تھا۔

سلطان معزالدین کیقباد کا دور مختصر تھا، جس کے کہنے پر خسرو نے  مثنوی 'قران السعدین‘ تحریر کی۔ اس مثنوی کے 14493 اشعار میں سلطان کے آباد کردہ شہر کی پوری تفصیلات، فنکاری اور صنعت و حرفت کا ایسا مرصع نقشہ ہے، جسے سن کر پورا دربار دم بخود رہ گیا تھا۔ سلطان کیقباد نے خسرو کو  ڈھیروں انعام و اکرام سے نوازنے کے ساتھ ساتھ ”ملک الشعراء" کے خطاب سے بھی نوازا۔ خسرو کو شاعری  کے حوالے سے  اپنی زندگی ہی میں شہرت اور مقبولیت مل گئی تھی اور انہوں نے بیشتر کتابیں اپنی زندگی ہی میں ترتیب دیں۔ خسرو نے اپنے  پانچ دیوانوں میں خاصے طویل دیباچے خود لکھے اور اکثر قصائد میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ کب اور کس کی شان میں کہے گئے ہیں۔

وہ نظام الدین اولیاء کے بڑے چہیتے مرید تھے اور انہیں بھی اپنے مرشد سے انتہائی عقیدت تھی۔ دوسرے مرید بھی مرشد کی توجہ کے لیے اکثر  خسرو ہی کو وسیلہ بناتے تھے۔ ایک طرف آپ کا تعلق درباروں سے تھا اور دوسری طرف نظام الدین اولیاء کی خانقاہ سے۔ 

 اپنے  پیرو مرشد کی جدائی میں امیر خسرو کا دل صرف شاعری ہی سے نہیں بلکہ زندگی سے بھی اچاٹ ہو گیا تھا۔ آخر کار دل کی اس بے قراری کو قرار آہی گیا اور محض چھ مہینے بعد خسرو نے بھی  28 ستمبر 1325ء کو اس جہان فانی کو خیر آباد کہا اور اپنے مرشد کے قدموں میں دفن ہوئے۔ تب تک وہ اپنا آخری دیوان ”نہایۃ الکمال" مکمل کر چکے تھے۔

سالانہ  عرس امیر خسرو کے عظیم الشان ادبی و ثقافتی ورثہ و فن  نیز بر صغیر میں مسلم عہد حکومت کی تذکیر اور یاد دہانی کا موقع فراہم کرتا ہے۔ 13ویں صدی کا یہ عوامی شاعر برصغیر ہند و پاک کی ادبی و ثقافتی تاریخ کی نمایاں شخصیات میں سے ایک ہے۔ بلکہ کئی اعتبار سے یکتائے روزگار ہے، جن کا فن وکلام آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔