1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انتخابات میں ناکامی: بھارتی حزب اختلاف جماعتوں کی نئی حکمت عملی

23 جون 2009

حالیہ انتخابات میں ناکامی کے بعد بھارت کی دو بڑی حزب اختلاف سیاسی جماعتوں نے مستبقل کی حکمت عملی کو حتمی شکل دینے کے لئے ملاقات کی۔

https://p.dw.com/p/IWs8
بھارتیہ جنتا پارٹی میں اب بھی کھینچا تانی اور ایک دوسرے کے خلاف الزامات کاسلسلہ جاری ہےتصویر: AP

بھارت میں حالیہ عام انتخابات میں اپنی شکست اور ناکامی کے اسباب پر غور کرنے اور مستقبل کالائحہ عمل طے کرنے کے لئے دو بڑی سیاسی جماعتوں بھارتیہ جنتا پارٹی اور مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے اعلی ترین فیصلہ ساز اداروں کی دو دنوں سی جاری میٹنگ ختم ہوگئی ہے۔ بی جے پی نے جہاں ہندوتو ا کے اپنے آزمودہ ایجنڈے کو ایک بار پھر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا وہیں بائیں بازو کی جماعت نے غیرکانگریسی اور غیربی جے پی حکومت کے قیام کے لئے اپنی کوشش جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

خود کو دوسرے سے الگ اور ڈسپلن قرار دینے والی بھارتیہ جنتا پارٹی میں اب بھی کھینچا تانی اور ایک دوسرے کے خلاف الزامات کاسلسلہ جاری ہے۔ پارٹی کے اعلی ترین فیصلہ ساز ادارے ورکنگ کمیٹی کی دو روزہ میٹنگ میں بھی یہ نظارہ دیکھنے کو ملا۔ مسلم ووٹوں کے معاملے میں پارٹی،میں واضح اختلاف دکھائی دیا۔ بعض اہم لیڈروں کا کہنا تھا کہ ورون گاندھی کے مسلم مخالف اور اشتعال انگیز تقریروں کی وجہ سے پارٹی کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ تاہم شدت پسند ہندوو ں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی سرپرستی میں کام کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی نے بالاخر ہندوتو کی پالیسی پر ہی دوبارہ عمل کرنے کا اعلان کیا۔ بی جے پی کے سابق صدر اور سینئر رہنما وینکیا نائیڈ و نے میٹنگ کے اختتام پر کہا کہ ”ہندوتوا ہمارا طریقہ حیات ہے ‘ ہم اس سے کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے ہیں“۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی ہندوتوا کی تشریح صحیح ڈھنگ سے نہیں کرسکی آئندہ اسے بہتر طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی اور مسلمانوں کو اس سے خوف کھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

Rajnath Singh Janata Partei Indien
حزب اختلاف رہنما ایل کے اڈوانی اور راج ناتھ سنگھتصویر: AP

بی جے پی نے اپنے منظور کردہ قرارداد میں بھی ہندوتو کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔ پارٹی کے ترجمان روی شنکر پرساد نے اس کی توضیح کرتے ہوئے کہا : ”بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک مخصوص آئیڈیالوجی ہے‘ ایک قوم پرستانہ آئیڈیالوجی ہے اور اس کو چھوڑ نے کی صورت میں وہ کانگریس پارٹی کی ذیلی ٹیم بن کر رہ جائے گی“۔ پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے بھی اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ بھارت میں ہمیشہ دائیں بازو کی جماعت کے لئے جگہ رہی ہے اور بی جے پی اس کی نمائندگی کرتی ہے “۔

عام انتخابات میں شکست کے بعد بی جے پی میں داخلی اختلافات کافی بڑھ گئے ہیں۔ اس صورت حال نے پارٹی کو نئی مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ حالانکہ بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے چند دنوں قبل سخت وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ غیرضروری بیانات دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گئی لیکن اس کے باوجود روزانہ نئی نئی خبریں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔

ادھر دوسری بڑی سیاسی جماعت مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے اعلی ترین فیصلہ ساز ادارے پولٹ بیورو نے اعتراف کیا کہ وہ عوام کو ایک واضح اور معتبر متبادل دینے میں ناکا م رہی۔ سی پی ایم نے کہا کہ وہ ملک گیر پیمانے پر مطلوبہ اتحادی حاصل کرنے میں ناکام رہی جس کا اثر اس کی انتخابی نتائج پر پڑا۔ پارٹی نے تاہم اعلان کیا کہ وہ ملک میں غیرکانگریسی اور غیربی جے پی حکومت کے قیام کی اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔

دریں اثنا بی جے پی کی سینئر رہنما اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر لال کرشن اڈوانی نے پارٹی میں نوجوانوں کو زیادہ موقع دینے کی وکالت کی اور کہا کہ پارٹی کو اگلے 20سال کے لئے ایک جامع پروگرام بنانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پارٹی میں نئی جان ڈالنے کے لئے ملک گیر دورہ شروع کریں گے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل بھی اڈوانی دو بار ملک گیر دورہ کرچکے ہیں۔ سن1989میں ان کے دورے یعنی رتھ یاترا نے بی جے پی کو مسند اقتدار تک پہنچایا تھا لیکن رتھ یاترا کی یادیں اب بھی کئی شہروں میں کسی خوفناک خواب کی طرح لوگوں کے ذہنوں پر چھائی ہوئی ہیں۔اس رتھ یاترا کے دوران فسادات پھوٹ پڑے تھے۔

افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت : عاطف بلوچ