1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انتہا پسند ثقافتی ورثے کے دشمن کیوں؟

عابد حسین1 ستمبر 2015

افغانستان، عراق اور شام میں پیدا شدہ جنگی حالات سے جہاں انسان بے پناہ مسائل کا شکار ہیں، وہاں آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات کو بھی تباہی کا سامنا ہے۔ ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قدیمی مساجد اور نبیوں کے مزارت کو بھی نہیں بخشا۔

https://p.dw.com/p/1GPYW
بعل ٹیمپل کو بارود سے ریزہ ریزہ کر دیا گیاتصویر: picture alliance/AP Photo

’اسلامک اسٹیٹ‘ نے جس طرح سے شام اور عراق میں ثقافتی ورثے کو تباہ برباد کیا ہے، اُس کو ماہرین نے ثقافتی تطہیر کا نام دیا ہے۔ میسوپوٹیمیا کے قدیمی مقامات کو زمین کے برابر کرنے کے علاوہ وہاں سے قدیمی نوادرات کو لوٹنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ قدیمی عاشوری تہذیب کے شہر نمرود کو بلڈوز کر دیا گیا۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کے مطابق اب تک ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں نے نوّے مقامات کو پوری طرح تباہ کیا ہے یا انتہائی زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ شامی شہر موصل کے کتب خانے سے ہزاروں نایاب کتب اور قلمی نسخے جلا دیے گئے تھے۔ مسلمانوں اور مسیحیوں کے مشترکہ مقدس مقام حضرت یونس کے مزار اور مسجد کو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں نے بارود سے اڑا دیا۔

انتہا پسند مسلمانوں نے کئی صوفیا کے مزاروں کو تباہ بھی کیا کیونکہ اُن کے خیال میں یہ اُن کے اسلامی عقیدے کے منافی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ انتہا پسند مسلمانوں نے پاکستانی قبائلی علاقے سے لے کر افغانستان، عراق، شام، لیبیا، صومالیہ اور مالی تک جہاں بھی انہیں موقع ملا، قدیمی مقامات اور بزرگانِ دین کے مزارات کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ لیبیا میں انتہا پسندوں نے وسطی طرابلس میں واقع الشعب الضہام کے مزار اور ملحقہ مسجد کو بھی بلڈوز کر دیا۔ اِسی طرح لیبیا کے مغربی شہر زلتان میں پندرہویں صدی کے مذہبی شخصیت اور بزرگ شیخ عبدالسلام الاسمر کے مزار کو بھی بارود سے اڑا کر ریزہ ریزہ کر دیا گیا۔

،
تباہی سے قبل بعل ٹیمپل کا نظارہتصویر: Reuters/Stringer

افریقی ملک مالی کا شہر ٹمبکٹُو قصے کہانیوں کا ایک تمدنی شہر کہلاتا ہے لیکن اِس کو بھی انتہا پسندوں کی چیرہ دستیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ شہر 333 صوفیا کا مَسکن کہلاتا ہے لیکن ان تمام کو تباہ کرنے کی جہادیوں نے ہر ممکن کوشش کی تھی۔ تباہی و بربادی کے اِس عمل میں انتہا پسندوں نے کم از کم پندرہ مزار تو تباہ کر ہی ڈالے تھے، اِس شہر کے کتب خانوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ ٹمبکٹو کا شہر پندرہویں اور سولہویں صدی میں سماجی، علمی، روحانی اور اقتصادی مرکز تھا۔ یہ شہر اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل ہے۔

اُدھر افغانستان میں سن 2001 میں ملا عمر کی حکومت قائم ہوئی تھی۔ افغان حکومت کے امیر المومنین کہلانے والے ملا عمر نے مشرقی افغان شہر بامیان میں پندرہ سو سال پرانے مہاتما بُدھ کے دو مجسموں کو تباہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ ملا عمر کے نزدیک مجسمہ سازی اسلامی شرعی اقدار کے منافی ہے۔ سارے افغانستان سے سینکڑوں طالبان نے کم از کم تین ہفتے لگا کر قدیمی تاریخی ورثے کو تباہ کر دیا تھا۔ افغانستان کے ہمسایہ ملک پاکستان میں طالبان نے مشہور صوفی شاعر رحمان بابا کے مزار پر بھی بم حملہ کر کے نقصان پہنچایا تھا۔ اِسی طرح وادیٴ سوات میں جب انتہا پسند دندناتے پھرتے تھے، تب انہوں نے بھی قدیمی اور تاریخی ورثے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی۔