1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسانوں کی طرح سیکھنے والی مشین ایجاد

امتیاز احمد11 دسمبر 2015

سائنسدانوں نے اب ایک ایسی مشین ایجاد کر لی ہے، جو بالکل ویسے ہی نئی چیزیں سیکھتی ہے، جیسے کہ کسی انسان کا دماغ کام کرتا ہے۔ اسے مصنوعی ذہانت کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HM52
Symbolbild Technologie und Mensch
تصویر: Fotolia/freshidea

سائنس جرنل میں اس نئی پیش رفت کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ نئی مشین اس ’نایاب انسانی صلاحیت پر قبضہ کرنے‘ کی صلاحیت رکھتی ہے، جس کے تحت انسان نئی چیزیں سیکھتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ فی الحال یہ مشین انسانوں کی طرح ہاتھ سے لکھے گئے سکرپٹ پڑھنے اور انہیں یاد رکھنے کے صلاحیت رکھتی ہے لیکن مستقبل کا منصوبہ یہ ہے کہ اس میں علامات کو سمجھنے والا سافٹ وئیر بھی نصب کیا جائے گا، جس کے تحت یہ مشین انسانی تاثرات، ڈانس میں ہونے والی حرکات اور بولے ہوئے الفاط بھی سمجھے گی۔

میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ فار ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے پروفیسر یوشاؤ ٹینن باؤم کہتے ہیں کہ وہ ایسی مشین یا روبوٹ بنانا چاہتے ہیں جو بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کی طرح مظاہرہ کر سکے۔

ان کا مزید کہنا تھا، ’’ کنڈر گارٹن میں جانے سے پہلے جس طرح بچوں میں نئے تصورات پیدا ہونے سے نئے تصورات ابھرتے ہیں اور وہ نت نئی چیزیں سیکھنے کا عمل شروع کردیتے ہیں، ایسا ہی اُن کی مشین بھی عملی مظاہرہ کر سکے۔‘‘

پروفیسر یوشاؤ ٹینن باؤم تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ابھی کوئی ایسی مشین بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے جو انسانی بچے کی طرح عقلمند ہو لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کوئی مشین بنائی گئی ہے جو کلاس میں بیٹھ کر پڑھنے اور سیکھنے کے قابل بظاہر دکھائی دیتی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ یہ مشین لرننگ پروگرام بی پی ایل فریم ورک کی بنیاد پر بنائی گئی ہے اور اس مقصد کے لیے سادہ کمپیوٹر پروگرام بنائے گئے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق اس میں مشین اپنے سابقہ تصورات یا سیکھی ہوئی چیزوں سے فائدہ اٹھاتی ہے اور اس طرح نئے تصورات سیکھنے میں اسے کم وقت درکار ہوتا ہے۔

تجربے کے طور پر اس مشین کو دنیا کی پچاس زبانوں کے ہاتھ سے لکھے ہوئے سولہ سو سے زائد الفاظ دیے گئے۔ انسانی دماغ کو نئے تصور کو سیکھنے کے لیے انتہائی کم ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے لیکن فی الحال یہ مشین اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ تاہم سائنسدانوں کو یقین ہے کہ مستقبل میں ایسا بھی ممکن ہو سکے گا۔