1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسانی اسمگلنگ کا شکار بھارتی لڑکیاں اپنی شناخت کی تلاش میں

عنبرین فاطمہ/ نیوز ایجنسیاں
10 جنوری 2018

جنوبی بھارت سے تعلق رکھنے والی پنکی ایک راک میوزک بینڈ کی گلوکارہ ہیں۔ اس برس وہ گٹار بجانا سیکھنا چاہتی ہیں تاکہ موسیقی کے ذریعے ایک قحبہ خانے سے میوزک بینڈ کی مرکزی گلوکارہ بننے تک کے سفر کی تلخ یادوں کو بُھلا سکیں۔

https://p.dw.com/p/2qeDP
Indien jügendliche Protituierte gerettet in Bombay
تصویر: imago/UIG

بھارتی ریاست کرناٹک کے ایک چھوٹے سے قصبے کی 19 سالہ رہائشی پنکی کو ان کے میوزک بینڈ کے ہمراہ شادیوں یا پارٹیوں میں پرفارم کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ اب سے ایک برس قبل ہی ایک بھارتی عدالت نے ان کے اغواکاروں اور خریدار کو دیگر چالیس مجرموں کے ہمراہ سزا سنائی ہے۔ ان تمام افراد پر کرناٹک کی ریاست میں لڑکیوں کی خرید و فروخت کے کاروبار کا الزام ثابت ہوا تھا۔

عدالت میں پنکی کے دیے گئے بیان کی بدولت اغواکار عورت اور اُس شخص کو سزا سنائی گئی، جس کے قحبہ خانے میں آٹھ ماہ تک پنکی جسم فروشی کے گھناؤنے کام کرنے پر مجبور کی جاتی رہیں۔ پنکی کہتی ہیں کہ ان افراد کو دی جانے والی دس سال کی سزا بہت کم ہے۔ ان  مجرموں کو عمر قید ہونی چاہیے تھی۔ لیکن اب وہ اس واقعے کو بُھلا کر آگے بڑھنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ 

Surabaya Rotlichtviertel Indonesien
تصویر: Getty Images

خبر رساں ادارے تھامس روئٹرز فاونڈیشن سے بات کرتے ہوئے پنکی کا کہنا تھاکہ وہ اپنے مجرموں کو سزا دلوانے کے لیے برقعے میں چھپ کر عدالت جاتی تھیں۔ پنکی نے مزید بتایا،’’کٹہرے میں کھڑے ہو کر اغواکاروں، قحبہ خانوں کے مالکان اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کی پہچان کرنے کا خیال بہت خوفناک تھا۔ لیکن میں سوچتی رہی کہ اس صورتحال کا سامنا کسی اور کو نہیں کرنا چاہئے۔بس اسی سوچ نے مجھے ہمت دی۔‘‘ 

متاثرین کی شناخت کا غیر مربوط نظام

یہ 2013 کی بات ہے جب کرناٹک کے ایک شہر بلاڑی میں اکیس بچوں سمیت 43 خواتین کو جسم فروشی کے گھناونے کاروبار کرنے والوں کے چُنگل سے رہائی دلائی گئی۔ رہائی کے بعد پنکی کو پراجوالا نامی ایک فلاحی تنظیم نے پناہ دی جو انسانی تجارت کے خلاف کام کرتی ہے۔ اس تنظیم کے مطابق بھارت میں ہر سال دولاکھ خواتین اور بچوں کی جسم فروشی کی جانب دھکیلا جاتا ہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق 20 ملین سیکس ورکرز میں سے تقریباﹰ 16 ملین خواتین اور لڑکیاں جسم فروشی کے کاروبار میں فروخت کی گئیں۔ 

Kinderprostitution in Bangladesch
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages

  'بھارت کی لاکھو‌ں لڑکیاں جسم فروشی پر مجبور‘

جسم فروشی کے کاروبار پر پہلی وی آر دستاویزی فلم

بھارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف سن 2016 میں ہی پولیس کی جانب سے آٹھ ہزار سے زائد انسانی ٹریفکنگ کے مقدمات عدالت مں دائر کیے گئے جن میں سے صرف 28 فیصد مقدموں پر کاروائی کی گئی۔       

امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سن 2017 کے لیے غیر قانونی انسانی تجارت پر شائع کردہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں متاثرین کی شناخت اور ان کے تحفظ کا عمل ’ناکافی اور نظام غیر مربوط‘ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق کبھی کبھی متاثرین کو غیر قانونی طور پر جسم فروشی پر گرفتار کر لیا جاتا ہے باوجود اس کے کہ وہ زبردستی اس کام کو کرنے کے لیے اغوا کیے گئے تھے ۔