1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسانی حقوق کا عالمی دن اور تبت کا مسئلہ

عاطف توقیر10 دسمبر 2008

تبتی باشندوں کے روحانی پیشوا دلائی لاما نے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ایک پیغام میں کہا کہ چینی حکومت تبت مین انسانی حقوق کا احترام کرے۔

https://p.dw.com/p/GD9b
دلائی لاما نے آج بدھ کے روز تائیوان میں انسانی حقوق کے حوالے سے منعقدہ ایک فورم کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ تبت میں انسانی حقوق کی صورتحال دگرگوں ہےتصویر: AP

دلائی لاما نے آج بدھ کے روز تائیوان میں انسانی حقوق کے حوالے سے منعقدہ ایک فورم کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ تبت میں انسانی حقوق کی صورتحال دگرگوں ہے اور چین، تبتی عوام کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال بند کرے۔

Studenten für ein freies Tibet werden bei einer Protestaktion von der Polizei verhaftet
آزاد تبت گروپ کی جاری کردہ انسانی حقوق کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تبت میں ریاستی اہلکاروں کی جانب سے تشدد اور عقوبت کے سلسلے میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آ رہیتصویر: picture-alliance/dpa

نوبل امن کے انعام یافتہ دلائی لاما نے، جو تائیوان کے شہر Kaosiung کی انتظامیہ کے اہتمام کردہ اس فورم میں خود شریک نہیں ہوسکے شرکاء کے نام اپنے پیغام میں چین پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چین جو دنیا کے سرکردہ ممالک میں سے ایک ہے اور تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سر فہرست بھی ہے، اب تک تبت میں انسانی حقوق کے حوالے سے صورتحال کو بہتر بنانے میں ناکام رہا ہے۔

انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ اگرچہ تبت میں ترقی اور معیشت کے حوالے سے صورتحال بہتر ہوئی ہے تاہم اب تک عوام کواظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تبتی ثقافت کو اپنی بقاء کے حوالے سے شدید دشواریوں کا سامنا ہے اور چین وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔

Studentische Protestaktion in Peking
تبت میں اس سال کے آغازسے چین مخالف اور آزادی کے حق میں تحریک میں شدت آئی ہےتصویر: AP

دلائی لاما نے کہا کہ چینی ریاست میں انسانی حقوق کے حوالے سے بہتری، جمہوریت اور قانون کی بالا دستی کی ضرورت ہے اور یہی وہ عوامل ہیں جو کسی بھی معاشرے کی بہتری میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں

دریں اثناء آج بدھ کے روز منائے جانے والےانسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر آزاد تبت گروپ کی جاری کردہ انسانی حقوق کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تبت میں ریاستی اہلکاروں کی جانب سے تشدد اور عقوبت کے سلسلے میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

BdT Proteste kurz vor Eröffnungsfeier
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چینی حکام کے زیر حراست تبتی باشندوں پر اس قدر تشدد کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی رہائی کے بعد بھی کئی طرح کی جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار رہتے ہیںتصویر: AP

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چینی حکام کے زیر حراست تبتی باشندوں پر اس قدر تشدد کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی رہائی کے بعد بھی کئی طرح کی جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار رہتے ہیں اور مہنگےعلاج اورسہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے اکثر اسی حالت میں ان کی موت واقع ہو جاتی ہیں۔

آزاد تبت گروپ نے اپنی اس تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ چینی حکومت تبتی باشندوں پر تشدد کوآزادی اور خود مختاری کی جدوجہد کو دبانے کے لئے اپنا موثر ہتھیار سمجھتی ہے۔

Hungerstreik-Kundgebung für freies Tibet in Nepal
دلائی لاما نے کہا کہ چینی ریاست میں انسانی حقوق کے حوالے سے بہتری، جمہوریت اور قانون کی بالا دستی کی ضرورت ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

اس تنظیم کا کہنا کہ گو کہ اگرچہ چینی حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ تشدد کے واقعات اکا دکا ہی دیکھنے میں آتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ چینی وزارت خارجہ کی جانب سے اس رپورٹ پر کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا۔

Tibet Demonstranten protestieren vor der chinesischen Botschaft in Berlin
انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ اگرچہ تبت میں ترقی اور معیشت کے حوالے سے صورتحال بہتر ہوئی ہے تاہم اب تک عوام کواظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔تصویر: AP

تبت میں اس سال کے آغازسے چین مخالف اور آزادی کے حق میں تحریک میں شدت آئی ہے بیجنگ حکومت اس کا الزام جلا وطن تبتی رہنما دلائی لاما پر عائد کر رہی ہے۔ جب کہ دلائی لاما چینی حکام کے ان الزمات سے انکار کرتے آ رہے ہیں کہ تبت اور آس پاس کے علاقوں میں پر تشدد مظاہروں اور احتجاجی تحریک کرنے میں ان کا ہاتھ تھا۔

کچھ روز قبل یورپی پارلیمان سے اپنے ایک خطاب میں دلائی لاما نے اس موقف کا اظہارکیا تھا کہ تبت میں انسانی حقوق کے حوالے سے چین کا ریکارڈ بہت خراب رہا ہے۔ انہوں نے چینی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا :’’ ہم آپ کے مخالف نہیں ہیں اور ہمیں آپ سے علیحدگی بھی نہیں چاہیے۔ ہم تبت کے لئے زیادہ خود مختاری چاہتے ہیں‘‘۔