1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انڈونیشیا: دوبارہ منتخب صدر یودھو یونو کو درپیش چیلنج

9 جولائی 2009

بدھ کو منعقد ہوئے صدارتی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق سابق جنرل اور لبرل خیالات کے حامل یودھو یونو نے حزب اختلاف کی رہنما میگاوتی سوکارنو پتری اور سبکدوش ہونے والے نائب صدر یوسف کالا کو ایک بڑی سبقت سے شکست دی۔

https://p.dw.com/p/IkVH
انڈونیشیا کے صدر یودھو یونوتصویر: AP

سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا میں سوہارتو کے آمرانہ دور کے بعد منعقد ہوئے دوسرے براہ راست صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد یودھو یونو ، ملک کے نئے جمہوری دور میں مقبول ترین رہنما بن کر ابھرے ہیں۔

ڈوئچے ویلے کی تبصرہ نگار سیبلے گولٹے کے خیال میں انڈونیشیا میں صدارتی انتخابی مہم کو اکثر تجزیہ نگاروں نے اس لئے غیر دلچسپ قرار دیا تھا کیونکہ اس میں کوئی خاص اتار چڑھاؤ دیکھنے میں نہیں آیا تھا اور یودھو یونو کی کامیابی کا یقین پہلے سے ہی تھا۔ سوہارتو کے دور کے گیارہ سال بعد اگرچہ ملک میں ایک اور جمہوری انتخابی عمل اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔

مسلسل دوسری مرتبہ صدراتی انتخاب میں کامیابی کے بعد یودھو یونو نے آج اپنے انتخابی وعدوں کا اعادہ کرتے ہوئے ملک کو اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا عہد کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ غربت کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے ملکی اقتصادی ترقی کو یقینی بنائیں گے۔

Megawati Sukarnoputri
حزب اختلاف کی رہنما میگاوتی سوکارنو پتریتصویر: AP

یودھویونو نے آج جمعرات کے روز جکارتہ میں صدارتی محل میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ اس سال اقتصادی ترقی کی شرح کا ٹارگٹ چار سے ساڑھے چار فیصد تک بنتا ہے جبکہ اسی سال ملک میں اوسط شرح سود میں چھ فیصد تک کی کمی متوقع ہے۔ انہوں نےامید ظاہر کی کہ رواں سال افراط زر کی شرح میں بھی چار فیصد تک کی کمی ہوگی۔

اگرچہ عمومی خیال یہ ہے کہ یودھویونو کے دوسرے دور صدارت کے دوران ملک میں بدعنوانی، غربت اور بنیادی انتظامی ڈھانچے میں بہتری کے لئے مزیداصلاحات کی جائیں گی تاہم کئی مقتدر حلقے یہ شکوک بھی ظاہر کررہے ہیں کہ آیا یودھو یونو انتظامیہ ملک میں نئی اصلاحات کے قابل بھی ہے یا نہیں۔

سن 2004 میں انڈونیشیا کے عوام نے یودھو یونو کو جو مینڈیٹ دیا تھا اب اس کی تکمیل کے لئے یودھو یونو کو مزید وقت مل گیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک کو ترقی کی سمت رواں رکھنے میں دوبارہ منتخب ہونے والے صدر کو بڑے چیلنجوں کے ایک انبار کا سامنا ہو گا جو ان کی اہلیت پراثر انداز ہو سکتا ہے۔

صدر یودھو یونو کی حکومت کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ وہ کس طرح غیر ملکی سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں تاکہ قدرتی وسائل سے مالا مال اس ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھائی جا سکے۔ بد عنوانی، غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے ناموافق انتظامی ڈھانچے اور افسر شاہی کے اثر ورسوخ کی وجہ سے ، یودھو یونو کو مطلوبہ نتائج کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ صدر کو اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھانے میں منقسم پارلیمان اور ریاستی طاقت کا مرکز کہلانے والے دیگر اداروں کی طرف سے بھی مزاحمت کا سامنا ہو سکتا ہے۔

رپورٹ : عاطف بلوچ

ادارت : مقبول ملک