1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما اور براوٴن نے کرزئی اور عبداللہ کو شاباشی دی

21 اکتوبر 2009

امریکہ اور برطانیہ نے افغان رہنماوٴں کی طرف سے انتخابات کے دوسرے راوٴنڈ میں حصّہ لینے کے فیصلے کو سراہا ہے۔

https://p.dw.com/p/KBYj
’’ہم نے دیکھا کہ افغان رہنماوٴں نے آئین کی بالادستی کے لئے یہ اہم فیصلہ کیا۔‘‘تصویر: AP

امریکی صدر باراک اوباما نے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لئے راضی ہوجانے پر حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اوباما کے مطابق یہ فیصلہ کرکے ان افغان رہنماوٴں نے پائیدار اور قابل اعتبار حکومت کے قیام کی سمت میں ایک مثبت قدم اٹھایا ہے۔

افغانستان میں اب سات نومبر کو موجودہ صدر حامد کرزئی اور سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ کے درمیان انتخابات کے دوسرے مرحلے میں مقابلہ ہوگا۔ باراک اوباما نے دونوں افغان رہنماوٴں سے ذاتی طور پر بات کی اور انہیں مبارک باد دی۔ اوباما نے اس حوالے سے اوول آفس میں نامہ نگاروں کو بتایا: ’’مجھے صدر کرزئی سے بات کرنے کا موقع ملا۔ انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لئے راضی ہوجانے پر میں ان کو مبار کباد دینا چاہتا تھا۔‘‘ اوباما نے مزید کہا:’’افغان رہنماوٴں نے آئین کی بالادستی کے لئے ایک اہم فیصلہ کیا۔‘‘

برطانوی وزیر اعظم گورڈن براوٴن نے افغانستان میں الیکشن کے دوسرے راوٴنڈ کے فیصلے کو جمہوریت کے لئے اچھا قرار دیا۔ گورڈن براوٴن نے کہا کہ افغانستان میں جمہوریت کی جڑیں مستقبل میں مزید مضبوط ہو سکتی ہیں اور اس لئے انتخابات کے دوسرے مرحلے کا فیصلہ بالکل صحیح ہے۔ براوٴن نے افغان صدر حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے فیصلوں کی بھی ستائتش کی۔’’صدر کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ کی طرف سے دوسرے راوٴنڈ کے لئے تیار ہونے کا فیصلہ بھی صیحیح ہے۔‘‘

اس سے قبل اوباما نے اپنے ایک بیان میں افغانستان میں انتخابات کے دوسرے مرحلے کا خیرمقدم کیا تھا۔ وائٹ ہاوٴس کے مطابق صدر اوباما نے بعد میں عبداللہ عبداللہ سے بھی علٰیحدہ بات چیت کی اور ان کے ’’تعمیری کردار‘‘ کے لئے ان کا شکریہ ادا کیا۔

Flash-Galerie Wahlen Afghanistan
افغانستان میں اب سات نومبر کو موجودہ صدر حامد کرزئی اور سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ کے درمیان انتخابات کے دوسرے مرحلے میں مقابلہ ہوگاتصویر: AP

اسی دوران اوباما کے ترجمان رابرٹ گبس نے کہا ہےکہ افغانستان میں انتخابات کے دوسرے راوٴنڈ کے پرامن انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے امریکہ، مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اور اقوام متحدہ کے فوجی بالکل تیار ہیں۔

دوسری جانب اعلیٰ امریکی حکام کا کہنا ہےکہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا سات نومبر کے انتخابی مرحلے سے افغانستان میں ممکنہ طور پر مزید چالیس ہزار امریکی فوجی بھیجنے کے فیصلے کی ٹائمنگ پر کوئی فرق پڑے گا یا نہیں۔

مغربی ملکوں کی طرف سے حامد کرزئی پر زبردست دباوٴ تھا کہ وہ دوسرے انتخابی راوٴنڈ کے لئے راضی ہوں۔ کرزئی پہلے اس بات پر بضد تھے کہ انہیں پہلے راوٴنڈ میں مطلوب اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔

گزشتہ ماہ حتمی مگر غیر تصدیق شدہ نتائج کے مطابق حامد کرزئی تقریباً 54 فی صد ووٹوں کے ساتھ سب سے آگے تھے جبکہ ان کے قریبی حریف عبداللہ عبداللہ 28 فی صد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر۔ ملکی آئین کے مطابق اکثریت حاصل کرنے کے لئے کسی بھی امیدوار کو پچاس فی صد سے زائد ووٹ درکار ہیں۔

20 اگست کے الیکشن میں کرزئی کے بعد عبداللہ کو ہی سب سے زیادہ ووٹ ملے تاہم یہ انتخابی عمل کئی لحاظ سے متنازعہ رہا۔ ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں اور بے ضابطگیاں سامنے آئیں جن کا اعتراف یورپی مبصرین، خودمختار انتخابی کمیشن اور الیکشن کمیشن برائے شکایات نے بھی کیا۔

انتخابی کمیشن برائے شکایات نے اپنی رپورٹ میں افغانستان کے 210 پولنگ اسٹیشنوں میں ڈالے گئے ووٹوں کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ انتخابی کمیشن برائے شکایات کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد یہ امکان روشن ہوگیا تھا کہ افغانستان میں حامد کرزئی اور حالیہ صدارتی انتخابات میں ان کے سب سے مضبوط حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان دوسرے مرحلے میں مقابلہ ہوگا۔

سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ پہلے ہی یہ کہہ چکے تھے کہ وہ ممکنہ دوسرے مرحلے کے لئے بالکل تیار ہیں۔

رپورٹ : گوہرنذیر گیلانی

ادارت : عاطف توقیر