1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما کی قومی سلامتی ٹیم

Daniel Scheschkewitz / افضال حسین3 دسمبر 2008

اوباما نے اپنی قومی سلامتی کی ٹیم کا اعلان کر دیا ۔ وزارت خارجہ کا قملدان متوقع طور پر سابق خاتون اوّل ہلری کلنٹن کے سپرد کیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے Daniel Scheschkewitz کا لکھاتبصرہ :

https://p.dw.com/p/G7pK
نیویارک کی خاتون سینیٹر، خاتون اوّل کی حیثیت سے عالمی سطح پر جانی پہچانی ہیں۔تصویر: AP

سیفٹی فرسٹ۔نو منتخب امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے خارجہ اور دفاعی امور کے وزرا کے ناموں کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کے مشیروں کا بھی اعلان کیا ہے۔ قابل اور با صلاحیت افراد پر مشتمل ان کی ٹیم مربوط سلامتی کی پالیسیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔

اگرچہ انہیں بش دور کی پالیسیوں کے اثرات سے پالا پڑے گا، اس کے باوجود ملکی سلامتی کو پہلے کی طرح آئندہ بھی دوسری باتوں پر فوقیت حاصل رہے گی۔

اوباما کو شاید ہی کوئی اور بہتر وزیر خارجہ دستیاب ہوتا، جیسا کہ ہلری کلنٹن۔ نیویارک کی خاتون سینیٹر، خاتون اوّل کی حیثیت سے عالمی سطح پر جانی پہچانی ہیں۔ پھر یہ کہ امریکی سینیٹ کی دفاعی کمیٹی میں شامل ہو کر انہوں نے گذشتہ برسوں کے دوران مزید تجربات حاصل کئے ہیں۔ عراق جنگ ہو یا ایران کا ایٹمی تنازعہ اور یا پھر بین الاقوامی دہشت گردی کا خطرہ، انہیں بخوبی علم ہے کہ آنے والے برسوں میں ان چیلنجوں سے ان کا واسطہ پڑے گا۔ وائٹ ہاؤس میں صدر کے بعد دوسرا سب سے اہم عہدہ ہلری کلنٹن کے پاس ہو گا۔ ان دونوں کو ایسا کردار ادا کرنا ہو گا کہ اتحادی ملکوں کو امریکہ پھر سے ایک ساتھی ملک کی طرح سے نظر آئے نہ کہ ایک فوجی بھائی کی طرح دکھائی دے۔

ہلری کلنٹن کی وزیر خارجہ کے طور پر نامزدگی کے ساتھ ہی پرائمری انتخابات کے دور کی کھینچاتانی بھی ختم ہو گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہلری ان دنوں وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کی طرح عراق جنگ کے حق میں تھیں۔ گیٹس نے دو سال قبل رمزفیلڈ کی جگہ یہ عہدہ سنبھالا تھا، جس کے بعد سے انہوں نے عراق میں ایک بہتر حکمت عملی اختیار کر کے امن امان کی صورت حال کوبہتر بنایا۔ گیٹس عراق سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امریکی فوجیں نکالنے کے حق میں ہیں۔ اوباما بھی اب اسی خیال کے حامی ہیں۔

مغربی ملکوں کی دفاعی تنظیم نیٹو کے سابق ہائی کمانڈر James John بھی تجربہ کار اور حالات پر گہری نگاہ رکھنے والے شخص ہیں۔ ان کا شمار ان ناقدین میں ہوتا ہے جنہوں نے افغانستان میں صدر بش کی زیر نگرانی لڑی جانے والی جنگ پرسخت تنقید کی تھی۔ قومی سلامتی کے مشیر کی حیثیت سے ان کے پاس یہ جاننے کے لئے کافی فوجی تجربہ موجود ہے کہ تنازعات صرف جنگوں کے ذریعے حل نہیں کئے جا سکتے۔

اوباما، قومی سلامتی کے امور ان با صلاحیت افراد کے حوالے کرنے کے بعد اپنی پوری توجہ امریکہ کے داخلی مسائل کے حل پر مرکوز کر سکیں گے کیوں کہ مالیاتی بحران، کساد بازاری اور ماحولیاتی تحفظ جیسے مسائل پوری توجہ کے بغیر حل نہیں کئے جا سکتے۔