1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما کے انتخاب پرمشرقِ وسطیٰ میں ردِ عمل

پیٹر فیلپ، مقبول ملک6 نومبر 2008

نئے صدر کے طور پرباراک اوباما کے انتخاب کے بعد اپنے اولین رد عمل میں، مشرق وسطیٰ میں، اسرائیل اور ایران نے ان تنازعات کا بھی ذکر کیا جو ایک طویل عرصے سے حل طلب ہیں۔

https://p.dw.com/p/FoF7
مشرقِ وسطیٰ میں اوباما کے انتخاب پر ملا جلا ردِ عمل دیکھنے میں آیا ہےتصویر: AP

امریکی عوام باراک اوباما کی صورت میں دنیا کی واحد سپر پاورکے نئے اور پہلے سیاہ فام صدر کا انتخاب کرچکے ہیں۔ باراک اوباما کی ذات سے خود امریکہ کے علاوہ دنیا بھر میں بہت سی توقعات وابستہ کی جارہی ہیں۔ اسی لئے امریکی سینیٹ کے اس رکن کے نئے صدر کے طور پرانتخاب کے بعد اپنے اولین رد عمل میں، مشرق وسطیٰ میں، اسرائیل اور ایران نے ان تنازعات کا بھی ذکر کیا جو ایک طویل عرصے سے حل طلب ہیں۔

Keine Ruhe in Gaza
مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے کیا اوباما جارج بش سے مختلف ثابت ہوں گے؟تصویر: AP

امریکی صدارتی الیکشن کے دن مشرق وسطیٰ کے خطے میں یہ دیکھنے میں آیا کہ اسرائیلی فوج نے غزہ پٹی کے علاقے میں گھس کر کئی فلسطینیوں کو ہلاک کردیا جو،خود اسرائیل کے بقول،مبینہ طور پر اُس کے فوجیوں کو اغواء کرنے کی تیاریاں کررہے تھے۔ پھر چند ہی لمحوں بعد، جون میں حماس کی طرف سے اعلان کردہ جنگ بندی کے بعد پہلی مرتبہ،جنوبی اسرائیل پر قسام طرز کے درجنوں راکٹ فائرکئے گئے۔ تہران میں ایک سرکاری ترجمان نے امریکہ کو خبردار کیا کہ وہ ایران پر حملے کے اپنے ارادوں سے باز رہے، کیونکہ اس روز امریکی جنگی ہیلی کاپٹر عراقی ایرانی سرحد کے خطرناک حد تک قریب پہنچ گئے تھے۔

Iran Atom Präsident Mahmud Ahmadinedschad
اپنی انتخابی مہم میں باراک اوباما نے ایرانی قیادت کے ساتھ بات چیت پر زور دیا تھاتصویر: AP

اس کے علاوہ اسرائیل میں یہ سوال بھی پوچھا جانے لگا کہ باراک اوباما کی کامیابی کے بعد کیا وائٹ ہاؤس کی طرف سے اسرائیل کی مکمل اور تقریباﹰ غیر مشروط حمائت کا دور ختم ہوجائے گا۔ پھر اس بات پر عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا گیا کہ باراک اوباما، جیسا کہ وہ کہہ بھی چکے ہیں، ایران کے بارے میں قطعی طور پر نئی سیاسی پالیسی اپنا سکتے ہیں۔

باراک اوباما کی فتح کے بعد ایران سے ملکی پارلیمان کے سابق اسپیکر کے ذریعے یہ سننے کو ملا کہ امریکہ میں نئی سیاسی تبدیلی کا اعلان اس امر کا اعتراف ہے کہ جارج ڈبلیو بُش کی سیاست غلط تھی اور اب اوباما کو اپنا وعدہ پورا کرنا ہوگا۔

Irak USA Reaktionen Wahl Obama Zeitung in Bagdad
ایک عراقی شخص اوباما کی فتح کی خبر پڑھتے ہوئے۔ عراق میں اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ اوباما امریکی صدر کی حیثیت سے عراق سے امریکی افواج کا جلد انخلاء ممکن بنائیں گے۔تصویر: AP

جہاں تک شام کا تعلق ہے تو امریکی انتخابات سے قبل ہی شامی وزیر اطلاعات محسن بلال نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ کہا تھا کہ دمشق امریکہ میں بڑی تبدیلی کی توقع کرتا ہے جبکہ فلسطینی صدر محمود عباس نے اوباما کی جیت کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ نئے امریکی صدر خطے میں قیام امن کے عمل کو اُس کے مثبت انجام تک پہنچانے میں کامیاب رہیں گے۔ اس کے برعکس حماس نے محض کسی بھی امید پسندی کا اظہار کرنے کی بجائے یہ کہا کہ واشنگٹن میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔

بات اگر عراق کی کی جائے تو بغداد میں بھی، امریکی صدارتی انتخابات اور سیاہ فام اوباما کی جیت کے بعد کسی بہت بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جارہی۔ مثلاﹰاپنی انتخابی مہم کے دوران باراک اوباما کا یہ اعلان کہ وہ اٹھارہ ماہ کے اندر اندر عراق سے امریکی فوجی دستے واپس بلا لیں گے، اس بارے میں دیکھا جائے تو صدر اوباما کے لئے وہ سب کچھ بروقت کرسکنا اتنا آسان نہیں ہوگا جو کچھ انہوں نے صدارتی امیدوار کے طور پر کہا تھا۔