1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ايتھنز ميں بالآخر مسجد کا قيام، مقامی مسلمان حيرت زدہ

عاصم سلیم
25 فروری 2017

يونانی دارالحکومت ايتھنز ميں پہلی باقاعدہ مسجد کی تعمير پر سترہ برس کی تاخير کے بعد بالآخر کام شروع ہو گيا ہے تاہم شہر ميں رہنے والے مسلمان مسجد کی تعمير کے پايہ تکميل تک پہنچنے کے بارے ميں کچھ زيادہ پر اميد نہيں۔

https://p.dw.com/p/2YF80
Griechenland Eid al-Adha
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Roark

ايتھنز ميں ايک مترجم کی حيثيت سے رہنے والے نصراللہ عابد کا مسجد کے تعمير کے بارے ميں کہنا ہے، ’’ميں کافی عرصے سے لوگوں کو اس بارے ميں بات چيت کرتے ہوئے سن رہا ہوں، ميں اسی وقت مانوں گا جب يہ ميرے سامنے ہو گا۔‘‘ عابد نے يہ بات نيوس کوس موس نامی ايک محلے ميں قائم ايک غير سرکاری مسجد ميں کی، جہاں وہ نماز ادا کرنے آئے تھے۔

ايتھنز ميں تين لاکھ مسلمان مقيم ہيں، جو شہر ميں قائم درجنوں غير سرکاری مساجد ميں نماز ادا کرتے ہيں۔ يہ مساجد مختلف گيراجوں وغيرہ ميں قائم ہيں۔ يونانی دارالحکومت ايتھنز ميں غير سرکاری مساجد کا نيٹ ورک پاکستان، افغانستان اور مصر سے تعلق رکھنے والے تارکين وطن کی آمد کے بعد وجود ميں آيا۔ يہ امر اہم ہے کہ ايتھنز ميں تو مسلمانوں کی تدفين کے ليے بھی کوئی باقاعدہ نظام و مقام نہيں۔ تدفين کے ليے مسلمانوں کو شمالی يونان کے شہر تھريس جانا پڑتا ہے، جو ترک نژاد ايک چھوٹی سی مسلمان اقليت کا گڑھ ہے۔

مسلم ايسوسی ايشن آف يونان کے صدر نيم الغادور اس صورتحال کو ’شرمناک‘ قرار ديتے ہيں۔ ان کے بقول مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہريوں کی طرح زندگياں گزارنی پڑتی ہيں۔ الغادور ايتھنز ميں مسجد کی تعمير کے حوالے سے بھی کچھ زيادہ پر اميد نہيں۔ مسجد کی تعمير کا منصوبہ در اصل سن 2000 ميں شروع ہوا تھا۔ تاحال اس بارے ميں کوئی اطلاع نہيں ہے کہ آيا مسجد اپريل ميں طے شدہ تاريخ پر کھل سکے گی۔

ايتھنز کے ڈپٹی ميئر اور مہاجرين سے متعلق امور کے نگران ليفٹيرس پاپاگياناکس کا کہنا ہے کہ يورپی يونين کے رکن ملکوں کے دارالحکومتوں ميں ايتھنز اب وہ واحد شہر ہے، جہاں اب بھی مسلمانوں کی باقاعدہ عبادت گاہ موجود نہيں۔ ان کے بقول اگر مقصد انتہا پسندی کے فروغ سے بچنا ہے، تو اس کے ليے تو زيادہ موزوں تو يہی ہو گا کہ عبادت کی کوئی سرکاری جگہ ہو، نہ کہ غير سرکاری مساجد کا نيٹ ورک۔

يونان ايک ايسا ملک ہے جہاں با اثر آرتھوڈوکس چرچ اور رياست کے بيچ لکير زيادہ واضح نہيں۔ يہی وجہ ہے کہ ايک مسجد کے قيام کے منصوبے کو کافی رکاوٹوں کا سامنا رہا۔ ابتدا ميں مسجد کی تعمير کے ليے جس مقام کو چنا گيا، وہاں کئی احتجاجی مظاہرے جاری رہے۔ کئی سال تک جاری رہنے والے مسائل کے بعد سن 2013 ميں اس منصوبے کو دوبارہ لانچ کيا گيا اور پھر گزشتہ برس اگست ميں يونانی پارليمان ميں رائے شماری اور مسجد کی تعمير کے ليے نو لاکھ چھياليس ہزار يورو کی منظوری کے بعد اس منصوبے کو اب آگے بڑھايا جا رہا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید