ايٹمی فضلے کو ذخيرہ کرنے کے خلاف جرمنی ميں احتجاج
25 نومبر 2011مخالفين کا کہنا ہے کہ ہزاروں سال تک خطرناک ايٹمی تابکاری خارج کرنے والے مادوں کو ذخيرہ کرنے کا يہ گودام محفوظ نہيں ہے۔ اس ٹرين کو اپنے جرمنی کی طرف سفر کے دوران فرانس ميں بھی ايٹمی ٹيکنالوجی کے مخالفين کی جانب سے پيدا کی جانے والی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی مقامات پر ريلوے لائنوں کونقصان بھی پہنچايا گيا۔
ايٹمی فضلے کو ری پروسيسنگ کے بعد فرانس سے جرمنی واپس لانے کا يہ کام ہر سال انجام پاتا ہے اور ہر سال اس کے خلاف مظاہرے ہوتے ہيں۔ جاپان ميں فوکوشيما کے ايٹمی بجلی گھر کی تباہی کے بعد جرمن حکومت نے ملک کے تمام ايٹمی بجلی گھروں کو سن 2022 تک بند کر دينے کا فيصلہ کيا ہے۔ اس کے بعد سے فرانس سے ايٹمی تابکار مادوں کے جرمنی لائے جانے کا يہ پہلا موقع ہے۔ پوليس کا کہنا ہے کہ اس حکومتی فيصلے کی وجہ سے اس سال جرمنی ميں مظاہرين کی تعداد پچھلے سال کے مقابلے ميں کم ہو گی۔ اس کے باوجود 20 ہزار کے قريب پوليس اہلکاروں کو اس ٹرانسپورٹ کی حفاظت پر مقرر کيا گيا ہے۔
متعلقہ حکام کو ابھی يہ فيصلہ کرنا ہے کہ اس قسم کے انتہائی خطرناک ايٹمی فضلے کو مستقل طور پر کہاں اس طرح ذخيرہ کيا جا سکتا ہے کہ ہزاروں برس تک تابکار رہنے والا اس ايٹمی مادے کی مہلک تابکاری کو کسی زلزلے وغيرے کی صورت ميں گودام کو نقصان پہنچنے کے نتيجے ميں بھی باہر کی فضا ميں خارج ہونے سے روکے رکھے۔ مخالفين کا کہنا ہے کہ گورليبن کا گودام اس کے ليے غير موزوں اور غير محفوظ ہے۔
جرمن پوليس نے جمعرات اور جمعہ کی شب کے دوران ايٹمی فضلے سے لدی ٹرين کا راستہ روکنے کی کوشش کرنے والے مظاہرين پر پائپوں سے پانی پھينکا۔ فرانس ميں پوليس نے بدھ کے روز ايٹمی پاور پلانٹس کے مخالفين پر آنسو گيس پھينکی تھی۔
فرانس کے صدر سارکوزی نےجمعے کو کہا کہ اُن کے ملک کے ايٹمی بجلی پر انحصار کو کم کرنا ديوانگی ہو گی۔ خاص طور پر فوکوشيما کے حادثے کے بعد دوسرے ممالک ايٹمی توانائی کو ترک کرنے کا فيصلہ کر رہے ہيں ليکن فرانس ابھی تک ايٹمی بجلی کا ايک بہت مضبوط گڑھ بنا ہوا ہے، جہاں ملکی ضرورت کی تين چوتھائی بجلی ايٹمی توانائی سے پيدا ہوتی ہے۔ کوئی بھی اور ملک اپنی ضرورت کی بجلی کا اتنا بڑا حصہ ايٹمی توانائی سے پيدا نہيں کرتا۔ اپريل ميں دوبارہ صدر منتخب ہونے کے اميد وار سارکوزی کا کہنا ہے کہ نيو کلئير انرجی کو ترک کرنے سے روز گار کے مواقع تباہ ہو جائيں گے۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی / خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک